You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ أَمِنْ الْحَلَالِ هِيَ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ فَمَنْ تَرَكَهَا اسْتِبْرَاءً لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ فَقَدْ سَلِمَ وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْهَا يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ كَمَا أَنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ
An-Numan bin Bashir narrated that the Messenger of Allah (S) said: The lawful is clear and the unlawful is clear, and between that are matters that are doubtful (not clear); many of the people do not know whether it is lawful or unlawful. So whoever leaves it to protect his religion and his honor, then he will be safe, and whoever falls into something from them, then he soon will have fallen into the unlawful. Just like if someone grazes (his animals) around a sanctuary, he would soon wind up in it. Indeed for every king is a sanctuary (pasture), and indeed Allah's sanctuary is what He made unlawful.
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اوراپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑگیا یعنی انہیں اختیارکرلیاتوقریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلاہوجائے،جیسے وہ شخص جوسرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرارہاہو،قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہوجائے ، جان لوکہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اورانہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اسے کئی رواۃنے شعبی سے اورشعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎ : مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مراد ایسے امور و معاملات ہیں جن کی حلت و حرمت سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریز کرے، اور جو شخص حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر ان میں ملوث ہو گیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، اس میں تجارت اور کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں۔