You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ قَالَ قَتَادَةُ ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ فَقَالَ فَهُوَ أَمِينُكَ لَا ضَمَانَ عَلَيْهِ يَعْنِي الْعَارِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا وَقَالُوا يَضْمَنُ صَاحِبُ الْعَارِيَةِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الْعَارِيَةِ ضَمَانٌ إِلَّا أَنْ يُخَالِفَ وَهُوَ قَوْلُ الْثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَقُ
Narrated Qatadah: From Al-Hasan, from Samurah, that the Prophet (ﷺ) said: Upon the hand is what it took, until it is returned. Qatadah said: Then Al-Hasan forgot, so he said: 'It is something you entrusted, he is not liable for it.' Meaning the borrowed property. [Abu 'Eisa said:] This Hadith is Hasan Sahih. Some of the people pf knowledge, among the Companions of the Prophet (ﷺ) and others, followed this Hadith. They said that the possessor of the borrowed thing is liable. This is the view of Ash-Shafi'i and Ahmad. Some of the people of knowledge among the Companions and others said that the possessor of the borrowed this is not liable unless there is dispute. This is the view of Sufyan Ath-Thawri and the people of Al-Kufah, and it is the view of Ishaq.
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوکچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادانہ کردے اس کے ذمہ ہے ۱؎ ،قتادہ کہتے ہیں: پھرحسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے جس نے عاریت لی ہے وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔اوریہی شافعی اور احمد کابھی قول ہے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے، عاریت لی ہوئی چیز کی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں، اس بارے میں تین اقوال ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ ہر صورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو، ابن عباس، زید بن علی، عطاء، احمد، اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہو گی تو اس کی ذمہ داری اس پر عائد نہ ہو گی، تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کرے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔