You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا وَمَنْ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتَنَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبَي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ
It was narrated from Ibn 'Abbas, that the Prophet(s.a.w) said: Whoever resides in the deserts, he becomes ignorant, whoever follows game, he becomes heedless, and whoever comes to the door of the Sultan, he will suffer a Fitnah.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس نے بادیہ(صحراء وبیابان) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والاہوگیا، جس نے شکارکاپیچھاکیاوہ غافل ہوگیا اورجوبادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکارہوگیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ صحراء وبیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتاہے اور علماء کی مجالس سے دوررہتاہے تو ایسا شخص تمدن وتہذیب سے دور ،سخت طبیعت والاہوگا، اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہوجائے گا، البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔کیوں کہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے، باد شاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتاہے تو فتنہ میں پڑ جائے گا، البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ صحراء و بیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ہے اور علماء کی مجالس سے دور رہتا ہے تو ایسا شخص تمدن و تہذیب سے دور، سخت طبیعت والا ہو گا، اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہو جائے گا، البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے، بادشاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتا ہے تو فتنہ میں پڑ جائے گا، البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔