You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ عَنْ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ سَمِعَنِي أَبِي وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ أَقُولُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ لِي أَيْ بُنَيَّ مُحْدَثٌ إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ قَالَ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ فِي الْإِسْلَامِ يَعْنِي مِنْهُ قَالَ وَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقُولُهَا فَلَا تَقُلْهَا إِذَا أَنْتَ صَلَّيْتَ فَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَغَيْرُهُمْ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ أَنْ يَجْهَرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالُوا وَيَقُولُهَا فِي نَفْسِهِ
Ibn Abdullah bin Mughaffal narrated: While I was praying, I said: Bismillahir-Rahmanir-Rahim In the Name of Allah, the Merciful, the Beneficent. My father heard me and said: O my son this is a newly invented matter, beware of the newly-invented.' He (Ibn Abdullah) said: I have not seen any one of the Companions of Allah's Messenger who hated a newly invented matter in Islam more than him. And he said: 'Ihave performed Salat with the Prophet, and with Abu Bakr, and Umar, and with Uthman. I did not hear any one of them saying it. So do not say it. When you are performing Salat say: Al-Hamdu lilahi Rabbil-Alamin All praise is due to Allah the Lord of all that exists.'
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے صلاۃمیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا:بیٹے!یہ بدعت ہے، اور بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جوان سے زیادہ اسلام میں بدعت کامخالف ہو، میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ، ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان ( رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ صلاۃ پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اُونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا، توتم بھی اسے نہ کہو ۱؎ ، جب تم صلاۃ پڑھو توقرأت الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- صحابہ جن میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی وغیرہ شامل ہیں اوران کے بعدکے تابعین میں سے اکثراہل علم کا عمل اسی پر ہے،اوریہی سفیان ثوری ، ابن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ بسم اللہ الرحمن الرحیم زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کاکہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ۲؎ ۔
وضاحت: ۱؎ : ” تم بھی اسے نہ کہو “ سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سرے سے «بسم اللہ» پڑھنے ہی سے منع کیا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے جہر (بلند آواز) سے پڑھنے سے روکنے پر محمول کیا جائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ ” ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا “، اس جملے کا تعلق بلند آواز سے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جو جہر (زور) سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ۲؎ : «بسم اللہ» کے زور سے پڑھنے کے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «صليت وراء أبي هريرة فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتى إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال آمين وقال الناس آمين» الحدیث، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «بسم اللہ» کا ذکر نہیں ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ نعیم المحجر ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جا سکتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اور جہراً دونوں طرح سے جائز ہے لیکن اکثر اور زیادہ تر صحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں (دیکھئیے حدیث رقم : ۲۴۶)۔