You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَلِيُّ أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي وَأَكْرَهُ لَكَ مَا أَكْرَهُ لِنَفْسِي لَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ وَقَدْ ضَعَّفَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحَارِثَ الْأَعْوَرَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ الْإِقْعَاءَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ
Ali narrated: Allah's Messenger said to me: 'O Ali! I love for you what I love for myself, and I dislike for you what I dislike for myself. Do not squat between prostrations.'
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لیے وہی چیزپسندکرتا ہوں جو اپنے لیے کرتاہوں، اوروہی چیز ناپسندکرتاہوں جو اپنے لیے ناپسندکرتاہوں ۔ تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ۱؎ نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اسے علی کی حدیث سے صرف ابواسحاق سبیعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے حارث سے اور حارث نے علی سے روایت کی ہے، ۲- بعض اہل علم نے حارث الاعور کو ضعیف قراردیاہے ۲؎ ،۳- اس باب میں عائشہ، انس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ وہ اقعاء کو مکروہ قراردیتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎ : اقعاء کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم یہ ہے کہ دونوں سرین زمین سے چپکے ہوں اور دونوں رانیں کھڑی ہوں اور دونوں ہاتھ زمین پر ہوں یہی اقعاء کلب ہے اور یہی وہ اقعاء ہے جس کی ممانعت آئی ہے، دوسری قسم یہ ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان قدموں کو کھڑا کر کے سرین کو دونوں ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھے، اس صورت کا ذکر ابن عباس کی حدیث میں ہے جس کی تخریج مسلم اور ابوداؤد نے بھی کی ہے، اور یہ صورت جائز ہے، بعض نے اسے بھی منسوخ شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ابن عباس کو اس نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو، لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے، صحیح قول یہ ہے کہ اقعاء کی یہ صورت جائز ہے اور افضل سرین پر بیٹھنا ہے اس لیے کہ زیادہ تر آپ کا عمل اسی پر رہا ہے اور کبھی کبھی آپ نے جو اقعاء کیا وہ یا تو کسی عذر کی وجہ سے کیا ہو گا یا بیان جواز کے لیے کیا ہو گا۔ ۲؎ : حارث اعور کی وجہ سے یہ روایت تو ضعیف ہے مگر اس باب کی دیگر احادیث صحیح ہیں جن کا ذکر مولف نے «وفی الباب» ”“ کر کے کیا ہے۔