You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو مُسْلِمٍ السَّعْدِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَسَكَتُوا فَقَالَ لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الْجِنِّ لَيْلَةَ الْجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ كُنْتُ كُلَّمَا أَتَيْتُ عَلَى قَوْلِهِ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ قَالُوا لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ ابْنُ حَنْبَلٍ كَأَنَّ زُهَيْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِي وَقَعَ بِالشَّامِ لَيْسَ هُوَ الَّذِي يُرْوَى عَنْهُ بِالْعِرَاقِ كَأَنَّهُ رَجُلٌ آخَرُ قَلَبُوا اسْمَهُ يَعْنِي لِمَا يَرْوُونَ عَنْهُ مِنْ الْمَنَاكِيرِ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ أَهْلُ الشَّامِ يَرْوُونَ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مَنَاكِيرَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَرْوُونَ عَنْهُ أَحَادِيثَ مُقَارِبَةً
Muhammad bin Al Munkadir narrated that: Jabir [may Allah be pleased with him] said: “The Messenger of Allah came out to his Companions, and recited Surat Ar-Rahman from its beginning to its end for them, and they were silent. So he said: ‘I recited it to the Jinns on the ‘Night of the Jinns,’ and they had a better response to it than you did. Each time I came to Allah’s saying: ‘Which of your Lords favor do you deny.’ They said: “We do not deny any of Your favors our Lord! And Yours is praise.”
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس آئے اوران کے سامنے سورہ رحمن شروع سے آخر تک پڑھی، لوگ (سن کر) چپ رہے، آپ نے کہا: میں نے یہ سورہ اپنی جنوں سے ملاقات والی رات میں جنوں کو پڑھ کر سنائی توانہوں نے مجھے تمہارے بالمقابل اچھا جواب دیا، جب بھی میں پڑھتاہواآیت {فَبِأَیِّ آلائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ }پر پہنچتا تووہ کہتے لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ (اے ہمارے رب ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرتے ، تیرے ہی لیے ہیں ساری تعریفیں) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت کے سواجسے وہ زہیر بن محمد سے روایت کرتے ہیں، اور کسی سے نہیں جانتے،۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: زہیر بن محمد جو شام میں ہیں، وہ زہیر نہیں جن سے اہل عراق روایت کرتے ہیں گویا کہ وہ دوسرے آدمی ہیں، لوگوں نے ان کانام اس وجہ سے تبدیل کردیا ہے (تاکہ لوگ ان کانام نہ جان سکیں) کیوں کہ لوگ ان سے منکر احادیث بیان کرتے تھے،۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل شام زہیر بن محمد سے مناکیر (منکر احادیث) روایت کرتے ہیں، اور اہل عراق ان سے صحیح احادیث روایت کرتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎ : «فبأي آلاء ربكما تكذبان» کا جملہ پوری سورت میں ۳۱ بار آیا ہے، تو کیا اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے نماز میں مقتدی امام کے جواب میں ۳۱ بار ایسا کہیں گے ؟ وہ بھی زور سے، ایسا سلف سے کوئی تعامل مروی نہیں ہے، اس لیے اس کا مطلب : یا تو یہ ہے کہ نماز سے باہر جب سنیں تو ایسا جواب دیں، یا نماز میں ایک بار جواب دیں کافی ہو گا، اس بارے میں امام احمد کا فتوی ہے کہ اپنے دل میں سرّاً کہہ لے (مغنی) اور زیادہ صرف نوافل اور سنن میں اس طرح کے جواب کے قائل ہیں۔