You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ
Ibn Umar narrated that : Umar gave a horse to be used in the cause of Allah. Then he saw it being sold, so he wanted to buy it, but the Prophet said: Do not take back what you have given in charity.
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھاکہ وہ گھوڑا بیچا جارہاہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرمﷺنے فرمایا:اپنا صدقہ واپس نہ لو ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے۔وضاحت ۱؎ : کیونکہ صدقہ دے کرواپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہاہے، لیکن جمہورنے اسے کراہت تنزیہی پرمحمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسااوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتاہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتاہے، نیز بظاہریہ حدیث ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیثلا تحل الصدقۃ إلا لخمسۃ لعامل علیہا أو رجل اشتراہا بما...الحدیثکے معارض ہے،تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پرمحمول کی جائیگی اور ابوسعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے، لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے، نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث «لا تحل الصدقة إلا لخمسة لعامل عليها اورجل اشتراها بما … الحديث» کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی الله عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائے گی اور ابوسعید رضی الله عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی الله عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔