You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: إِنَّ [ص:27] النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ: «اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ»، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الجُلُودَ وَالمَيْتَةَ وَالجِيَفَ، وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الجُوعِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ، وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} [الدخان: 10] إِلَى قَوْلِهِ {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ البَطْشَةَ الكُبْرَى، إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} [الدخان: 16] فَالْبَطْشَةُ: يَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ مَضَتِ الدُّخَانُ وَالبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ
Narrated Masruq: We were with `Abdullah and he said, When the Prophet saw the refusal of the people to accept Islam he said, O Allah! Send (famine) years on them for (seven years) like the seven years (of famine during the time) of (Prophet) Joseph. So famine overtook them for one year and destroyed every kind of life to such an extent that the people started eating hides, carcasses and rotten dead animals. Whenever one of them looked towards the sky, he would (imagine himself to) see smoke because of hunger. So Abu Sufyan went to the Prophet and said, O Muhammad! You order people to obey Allah and to keep good relations with kith and kin. No doubt the people of your tribe are dying, so please pray to Allah for them. So Allah revealed: Then watch you For the day that The sky will bring forth a kind Of smoke Plainly visible ... Verily! You will return (to disbelief) On the day when We shall seize You with a mighty grasp. (44.10-16) Ibn Mas`ud added, Al-Batsha (i.e. grasp) happened in the battle of Badr and no doubt smoke, Al-Batsha, Al-Lizam, and the verse of Surat Ar-Rum have all passed .
ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبد اللہ بن مسعودنے ( دوسری سند ) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبد الحمید نے منصور بن مسعود بن معتمر سے بیان کیا، اور ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار قریش کی سرکشی دیکھی توآپ نے بد دعا کی کہ اے اللہ! سات برس کا قحط ان پر بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے وقت میں بھیجا تھا چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہوگئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھا لیے۔ بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی جاتی تو دھویں کی طرح معلوم ہوتا تھا آخر مجبور ہو کر ابوسفیان حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اب تو آپ ہی کی قوم برباد ہو رہی ہے، اس لیے آپ خدا سے ان کے حق میں دعا کیجئے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان صاف دھواں نظر آئے گا آیت انکم عائدون تک ( نیز ) جب ہم سختی سے ان کی گرفت کریں گے ( کفار کی ) سخت گرفت بدر کی لڑائی میں ہوئی۔ دھویں کا بھی معاملہ گزر چکا ( جب سخت قحط پڑا تھا ) جس میں پکڑ اور قید کا ذکر ہے وہ سب ہو چکے اسی طرح سورۃ روم کی آیت میں جو ذکر ہے وہ بھی ہو چکا۔
یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف رکھتے تھے۔ قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط زدہ علاقے ویرانے بن گئے تھے۔ ابو سفیان نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور صلہ رحمی کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعا فرمائی اور قحط ختم ہوا یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ استسقاءمیں اس لیے لائے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے اسی طرح کافروں پر قحط کی بد دعا کرنا جائز ہے۔ روایت میں جن مسلمان مظلوموں کا ذکر ہے یہ سب کافروں کی قید میں تھے۔ آپ کی دعا کی برکت سے اللہ نے ان کو چھوڑا دیا اور وہ مدینہ میں آپ کے پاس آگئے۔ سات سال تک حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط پڑا تھا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ غفار اور اسلم یہ دو قومیں مدینہ کے ارد گرد رہتی تھیں۔ غفار قدیم سے مسلمان تھے اور اسلم نے آپ سے صلح کر لی تھی۔ پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے“اس دن کا منتظر رہ جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا جو لوگوں کو گھیر ے گا۔ یہی تکلیف کا عذاب ہے اس وقت لوگ کہیں گے مالک ہمارے!یہ عذاب ہم پرسے اٹھا دے ہم ایمان لاتے ہیں”آخرتک۔ یہاں سورۃ دخان میں بطش اور دخان کا ذکر ہے۔ اور سورۃ فرقان میں فسوف یکون لزاما ( الفرقان: 77 ) لزام یعنی کافروں کے لیے قید ہونے کا ذکر ہے۔ یہ تینوں باتیں آپ کے عہد میں ہی پوری ہوگئی تھیں۔ دخان سے مراد قحط تھا جو اہل مکہ پر نازل ہوا جس میں بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں نظر آتا تھا اور ( بطشۃ الکبری ) ( بڑی پکڑ ) سے کافروں کا جنگ بدر میں مارا جانا مراد ہے اور لزام ان کا قید ہونا۔ سورۃ روم کی آیت میں یہ بیان تھا کہ رومی کافر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال میں رومی پھر غالب ہو جائیں گے۔ یہ بھی ہو چکا۔ آئندہ حدیث میں شعر ( ستسقی الغمام الخ ) ابو طالب کے ایک طویل قصیدے کا ہے جو قصیدہ ایک سودس ( 110 ) اشعار پر مشتمل ہے جسے ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا تھا