You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ عُرْوَةُ كَانَ النَّاسُ يَطُوفُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ عُرَاةً إِلَّا الْحُمْسَ وَالْحُمْسُ قُرَيْشٌ وَمَا وَلَدَتْ وَكَانَتْ الْحُمْسُ يَحْتَسِبُونَ عَلَى النَّاسِ يُعْطِي الرَّجُلُ الرَّجُلَ الثِّيَابَ يَطُوفُ فِيهَا وَتُعْطِي الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ الثِّيَابَ تَطُوفُ فِيهَا فَمَنْ لَمْ يُعْطِهِ الْحُمْسُ طَافَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانًا وَكَانَ يُفِيضُ جَمَاعَةُ النَّاسِ مِنْ عَرَفَاتٍ وَيُفِيضُ الْحُمْسُ مِنْ جَمْعٍ قَالَ وَأَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي الْحُمْسِ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ قَالَ كَانُوا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ فَدُفِعُوا إِلَى عَرَفَاتٍ
Narrated `Urwa: During the Pre-Islamic period of Ignorance, the people used to perform Tawaf of the Ka`ba naked except the Hums; and the Hums were Quraish and their offspring. The Hums used to give clothes to the men who would perform the Tawaf wearing them; and women (of the Hums) used to give clothes to the women who would perform the Tawaf wearing them. Those to whom the Hums did not give clothes would perform Tawaf round the Ka`ba naked. Most of the people used to go away (disperse) directly from `Arafat but they (Hums) used to depart after staying at Al-Muzdalifa. `Urwa added, My father narrated that `Aisha had said, 'The following verses were revealed about the Hums: Then depart from the place whence all the people depart--(2.199) `Urwa added, They (the Hums) used to stay at Al-Muzdalifa and used to depart from there (to Mina) and so they were sent to `Arafat (by Allah's order).
ہم سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حمس کے سوا بقیہ سب لوگ جاہلیت میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، حمس قریش اور اس کی آل اولا دکوکہتے تھے، (اور بنی کنانہ وغیرہ، جیسے خزاعہ ) لوگوں کو (اللہ کے واسطے ) کپڑے دیا کرتے تھے۔ (قریش ) کے مرد دوسرے مردوں کو تاکہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں اور (قریش کی ) عورتیں دوسری عورتوں کو تاکہ وہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں، اور جن کو قریش کپڑا نہیںدیتے وہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے۔ دوسرے سب لوگ تو عرفات سے واپس ہوتے لیکن قریش مزدلفہ ہی سے (جو حرم میں تھا ) واپس ہو جاتے۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ بن زبیر نے مجھے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ یہ آیت قریش کے بارے میں نازل ہوئی کہ ” پھر تم بھی (قریش ) وہیں سے واپس آؤ جہاں سے اور لوگ واپس آتے ہیں (یعنی عرفات سے، سورۃ بقرہ ) انہوں نے بیان کیا کہ قریش مزدلفہ ہی سے لوٹ آتے تھے اس لیے انہیں بھی عرفات سے لوٹنے کا حکم ہوا۔
کعبہ شریف سے میدان عرفات تقریباً پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ جگہ حرم سے خارج ہے، اس اطراف میں وادی عرفہ، قریہ عرفات، جبل عرفات، مشرقی سڑک واقع ہیں، یہاں سے طائف کے لیے راستہ جاتا ہے۔ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام خلیل اللہ علیہ السلام کو مناسک سکھلاتے ہوئے اس میدان تک لائے تو کہا ” ہل عرفت“ آپ نے مناسک حج کو جان لیا؟ اس وقت سے اس کا نام میدان عرفات ہوا۔ ( در منشور ) یہ جگہ ملت ابراہیمی میں ایک اہم تاریخی جگہ ہے اور اس میں وقوف کرنا ہی حج کی جان ہے اگر کسی کا یہ وقوف فوت ہو جائے تو اس کا حج نہیں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا : قفوا علی مشاعرکم فانکم علی ارث ابیکم ابراہیم یعنی میدان عرفات میں جہاں اتر چکے ہو وہاں پر وقوف کرو، تم سب اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی موروثہ زمین پر ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے قانون اساسی کا اعلان اسی مقام پر فرمایا تھا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کا مشہور خطبہ عرفات اسی کی یادگار ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : کنت ردف النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفات فرفع یدیہ فمالت ناقتہ فسقط خطامہا فتناول الخطام باحدی یدیہ وہو رافع یدہ الاخری ( رواہ النسائی ) عرفا ت میں آنحضرت صلی اللہ کی اونٹنی پر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جھک گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اس کی نکیل چھوٹ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ اس کے اٹھانے کے لیے نیچے جھکا دیا اور دوسرا ہاتھ دعاؤں میں بدستور اٹھائے رکھا۔ میدان عرفات میں یہی وقوف یعنی کھڑا ہونا اور شام تک دعاؤں کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانا یہی حج کی روح ہے، یہ فوت ہوا تو حج فوت ہو گیا اور اگر اس میں کوئی شخص شریک ہوگیا اس کا حج ادا ہو گیا۔ جمہور کے نزدیک عرفات کا یہ وقوف ظہر عصر کی نماز جمع کرکے نمرہ میں ادا کرلینے کے بعد ہونا چاہئے، حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں : انہ صلی اللہ علیہ وسلم و الخلفاءالراشدین بعدہ لم یقفوا الا بعد الزوال و لم ینقل عن احد انہ وقف قبلہ ( نیل ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاءراشدین سب کا یہی عمل رہا ہے کہ زوال کے بعد ہی عرفات کا وقوف کیا ہے، زوال سے پہلے وقوف کرنا کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔ وقوف سے مرادظہر اور عصر ملا کر پڑھ لینے کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا اور وہاں شام تک کھڑے کھڑے دعائیں کرنا ہے، یہی وقوف حج کی جان ہے، اس مبارک موقع پر جس قدر بھی دعائیں کی جائیںکم ہیں، کیوں کہ آج اللہ پاک اپنے بندوں پر فخر کر رہا ہے جو دور دراز ملکوں سے جمع ہو کر آسمان کے نیچے ایک کھلے میدان میں اللہ پاک کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعائیں کررہے ہیں، اللہ پاک حاجی صاحبان کی دعائیں قبول کرے اور ان کو حج مبرور نصیب ہو آمین۔ جو حاجی میدان میں عرفات میں جاکر بھی حقہ بازی کرتے رہتے ہیں وہ بڑے بدنصیب ہیں خدا ان کو ہدایت بخشے۔ ( آمین )