You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي [ص:46] حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «كَانَتِ الكِلاَبُ تَبُولُ، وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي المَسْجِدِ، فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ»
And narrated Hamza bin 'Abdullah: My father said. During the lifetime of Allah's Apostle, the dogs used to urinate, and pass through the mosques (come and go), nevertheless they never used to sprinkle water on it (urine of the dog.)
احمد بن شبیب نے کہا کہ ہم سے میرے والد نے یونس کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا مجھ سے حمزہ بن عبداللہ نے اپنے باپ ( یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے، اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام واہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی سب باتوں سے منع کردیا گیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ لوگو! مسجد میں بے ہودہ بات کرنے سے پرہیز کیا کرو، سو جب لغو باتوں سے روک دیا گیا، تو دوسرے امورکا حال بھی بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔ اسی لیے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا۔ اب وہی حکم باقی ہے۔ جس کی تائید اور بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض روایات میں کتے کے جھوٹے برتن کے بارے میں اتنی تاکید آئی ہے کہ اسے پانی کے علاوہ آٹھویں بار مٹی سے صاف کرنے کا بھی حکم ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ دھونا چاہئیے پھر سات دفعہ پانی سے دھونا چاہئیے۔ اس مسئلہ میں احناف اور اہل حدیث کا اختلاف: کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار پانی سے دھونا اور ایک بار صرف مٹی سے مانجھنا واجب ہے۔ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے اور صرف تین بار پانی سے دھونایہ حنفیہ کا مذہب ہے۔ سرتاج علمائے اہل حدیث حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ قال الشوکانی فی النیل یدل علی وجوب الغسلات السبع فی ولوغ الکلب والیہ ذہب ابن عباس و عروۃ بن الزبیر و محمد بن سیرین و طاووس و عمروبن دینار والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد بن حنبل واسحاق و ابوثور و ابوعبیدۃ و داود انتہی۔ وقال النووی وجوب غسل نجاسۃ ولوغ الکلب سبع مرات وہذا مذہبنا و مذہب مالک و الجماہیر۔ وقال ابوحنیفۃ یکفی غسلہ ثلاث مرات انتہی۔ وقال الحافظ فی الفتح واما الحنفیۃ فلم یقولوا بوجوب السبع ولا التترتیب۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 93 ) خلاصہ اس عبارت کا یہی ہے کہ ان احادیث کی بنا پر جمہورعلمائے اسلام، صحابہ کرام و تابعین وائمہ ثلاثہ و دیگر محدثین کا مذہب یہی ہے کہ سات مرتبہ دھویا جائے۔ برخلاف اس کے حنفیہ صرف تین ہی دفعہ دھونے کے قائل ہیں۔ اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے طبرانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے تین بار یاپانچ بار یا سات بار دھوڈالو۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لیے کہ شیخ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ حسب وضاحت امام دارقطنی اس کی سند میں ایک راوی عبدالوہاب نامی متروک ہے، جس نے اسماعیل نامی اپنے استاد سے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا۔ حالانکہ ان ہی اسماعیل سے دوسرے راوی اسی حدیث کو روایت کرتے ہیں۔ جنھوں نے سات بار دھونا نقل کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ کہ یہ حدیث دار قطنی میں ہے جو طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے اور سنن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے۔ اخرج ابن ماجۃ عن ابی رزین قال رایت اباہریرۃ یضرب جبہتہ بیدہ ویقول یا اہل العراق انتم تزعمون انی اکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم لیکون لکم الہنا وعلی الاثم اشہد سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یقول اذا ولغ الکلب فی اناءاحدکم فلیغسلہ سبع مرات۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 94 ) یعنی ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ ماررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے عراقیو! تم ایسا خیال رکھتے ہو کہ میں تمہاری آسانی کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور گنہگار بنوں۔ یاد رکھو میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایاکہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈالے تواسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تین بار دھونے کی روایت ناقابل اعتبارہے۔ علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے دلائل خلافیہ پر منصفانہ روشنی ڈالی ہے۔ ( دیکھو سعایہ، ص: 451 ) بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتا اور کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ بعض علماءمالکیہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ان حادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض کتے کی اور اس کے جھوٹے کی پاکی ثابت کرنا ہے اور بعض علماءکہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ غرض نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے صرف لوگوں کے مذہب بیان کئے ہیں۔ وہ خود اس کے قائل نہیں ہیں، اس لیے کہ ترجمہ میں آپ نے صرف کتے کے جھوٹے کا نام لیا۔یوں نہیں کہا کہ کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ حدیث بخاری کے ذیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: وفی الحدیث دلیل علی نجاسۃ فم الکلب من حیث الامر بالغسل لما ولغ فیہ والا راقۃ للمائ۔ ( مرعاۃ، ج 1، ص: 324 ) یعنی اس حدیث مذکورہ سے بخاری میں دلیل ہے کہ کتے کا منہ ناپاک ہے اسی لیے جس برتن میں وہ منہ ڈال دے اسے دھونے اور اس پانی کے بہادینے کاحکم ہوا۔ اگر اس کا منہ پاک ہوتا تو پانی کو اس طور پر ضائع کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ منہ کے ناپاک ہونے کا مطلب اس کے تمام جسم کا ناپاک ہونا ہے۔ کلب معلم وہ کتاجس میں اطاعت شعاری کا مادہ بدرجہ اتم ہو اور جب بھی وہ شکار کرے کبھی اس میں سے خود کچھ نہ کھائے۔ ( کرمانی )