You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَبَلَغَهُ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ شِدَّةُ وَجَعٍ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعَتَمَةَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا
Narrated Zaid bin Aslam from his father: I was with Ibn `Umar on the way to Mecca, and he got the news that Safiya bint Abu Ubaid was seriously ill. So, he hastened his pace, and when the twilight disappeared, he dismounted and offered the Maghrib and `Isha' prayers together. Then he said, I saw that whenever the Prophet had to hasten when traveling, he would delay the Maghrib prayer and join them together (i.e. offer the Maghrib and the `Isha prayers together).
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا کہ انہیں (اپنی بیوی ) صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی خبر ملی اور وہ نہایت تیزی سے چلنے لگے، پھر جب سرخی غروب ہوگئی تو سواری سے نیچے اترے اور مغرب اور عشاءایک ساتھ ملا کر پڑھیں، اس کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب جلدی چلنا ہوتا تو مغرب میں دیر کرکے دونوں (عشاءاور مغرب ) کو ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔
یہ اس لیے کہ اسلام سراسر دین فطرت ہے، زندگی میں بسااوقات ایسے مواقع آجاتے ہیں کہ انسان وقت پر نماز ادا کرنے سے سراسر مجبور ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں یہ سہولت رکھی گئی کہ دو نمازیں ملا کر پڑھ لی جائیں، اگلی نماز مثلاً عشاءکو پہلی یعنی مغرب میں ملا لیا جائے یا پھر پہلی نماز کو دیر کرکے اگلی یعنی عشاءمیں ملا لیا جائے ہر دو امر جائز ہیں مگر یہ سخت مجبوری کی حالت میں ہے ورنہ نماز کا ادا کرنا اس کے مقررہ وقت ہی پر فر ض ہے۔ ارشاد باری ہے ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا اہل ایمان پر نماز کا بروقت ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ مسائل و احکام حج کے سلسلے میں آداب سفر پر روشنی ڈالنا ضروری تھا۔ جب کہ حج میں از اول تا آخر ہی سفر سے سابقہ پڑتا ہے، اگرچہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے مگر سفر وسیلہ ظفر بھی ہے جیسا کہ حج ہے۔ اگر عنداللہ یہ قبول ہو جائے تو حاجی اس سفر سے اس حالت میں گھر واپس ہوتا ہے کہ گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ اس سفر ہی کی برکت ہے کہ مغفرت الٰہی کا عظیم خزانہ نصیب ہوابہرحال آداب سفر میں سب سے اولین ادب فرض نماز کی محافظت ہے۔ پس ہرمسلمان کی یہ عین سعادت مندی ہے کہ وہ سفر وحضر میں ہر جگہ نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ بجا لائے، ساتھ ہی اسلام نے اس سلسلہ میں بہت سی آسانیاں بھی دیں تاکہ سفر وحضر میں ہر جگہ یہ فر ض آسانی سے ادا کیا جاسکے، مثلاً ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض ہے مگر پانی نہ ہو تو مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے، مسلمانوں کے لیے ساری زمین کو قابل عبادت قرار دیا گیا کہ جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز ادا کرسکیں حتی کہ دریاؤں میں، پہاڑوں کی چوٹیں پر، لق و دق بیابانوں میں، زمین کے چپہ چپہ پر نماز ادا کی جاسکتی ہے اور یہ بھی آسانی دی گئی جس پر مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں اشارہ فرمایا ہے کہ مسافر خواہ وہ حج ہی کے لیے کیوں نہ سفر کر رہا ہو دو دو نمازوں کو بیک وقت ملا کر ادا کرسکتا ہے جیسا کہ حدیث باب میں مذکور ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی اہلیہ محترمہ کی بیماری کی خبر سنی تو سواری کو تیز کر دیا تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ کر مریضہ کی تیمارداری کرسکیں، نیز نماز مغرب اور عشاءکو جمع کرکے ادا کر لیا، ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سفر میں نمازوں کو اس طرح ملا کر ادا فرما لیا کرتے تھے۔ ایک ایسے دین میں جو تاقیامت عالمگیری شان کے ساتھ باقی رہنے کا دعوایدار ہو ایسی جملہ آسانیوں کا ہونا ضروری تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما محتاج تعارف نہیں ہیں۔ ان کی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے ہیں، آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید بنوثقیف سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا اور آپ کے ارشاد طیبات سننے کا موقعہ ان کو بارہا ملا۔ آپ کی مرویات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہیں، اور حضرت نافع جو حضرت عبداللہ بن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ ان سے روایت کرتے ہیں رضی اللہ عنہم۔