You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ افْتَتَحَ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا فَإِنَّ هَذَا بَلَدٌ حَرَّمَ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا قَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ قَالَ قَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ
Narrated Ibn `Abbas: On the day of the conquest of Mecca, the Prophet said, There is no more emigration (from Mecca) but Jihad and intentions, and whenever you are called for Jihad, you should go immediately. No doubt, Allah has made this place (Mecca) a sanctuary since the creation of the heavens and the earth and will remain a sanctuary till the Day of Resurrection as Allah has ordained its sanctity. Fighting was not permissible in it for anyone before me, and even for me it was allowed only for a portion of a day. So, it is a sanctuary with Allah's sanctity till the Day of Resurrection. Its thorns should not be uprooted and its game should not be chased; and its luqata (fallen things) should not be picked up except by one who would announce that publicly, and its vegetation (grass etc.) should not be cut. Al-`Abbas said, O Allah's Apostle! Except Al-Idhkhir, (for it is used by their blacksmiths and for their domestic purposes). So, the Prophet said, Except Al-Idhkhir.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت فرض نہیں رہی لیکن (اچھی ) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو تیار ہو جانا۔ اس شہر (مکہ ) کو اللہ تعالیٰ نے اسی دن حرمت عطاءکی تھی جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اس لیے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لیے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھر کے لیے (فتح مکہ کے دن اجازت ملی تھی ) اب ہمیشہ یہ شہر اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے پس اس کا کانٹا کاٹا جائے نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! اذخر (ایک گھاس ) کی اجازت تو دیجئے کیوں کہ یہاں یہ کاری گروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ ے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔
عہد رسالت میں ہجر ت کا سلسلہ فتح مکہ پر ختم ہو گیا تھا کیوں کہ اب خود مکہ شریف ہی دار الاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی سے رہنا نصیب ہو گیا لیکن یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے کہ کسی زمانہ میں کہیں بھی دار الحرب سے بوقت ضرورت مسلمان دار الاسلام کی طرف ہجرت کرسکتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ اپنے دین ایمان کو بہرحال محفوظ رکھنے کے لیے حسن نیت رکھنا ہر زمانہ میں ہر وقت باقی ہے۔ ساتھ ہی سلسلہ جہاد بھی قیامت تک کے لیے باقی ہے جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور اسلامی سربراہ جہاد کے لیے اعلان کرے تو ہر مسلمان پر اس کے اعلان پر لبیک کہنا فرض ہو جاتا ہے، جب مکہ شریف فتح ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی تھی، جو وہاں استحکام امن کے لیے ضروری تھی بعد میں وہ اجازت جلدی ہی ختم ہو گئی اور اب مکہ شریف میں جنگ کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مکہ سب کے لیے دار الامن ہے جو قیامت تک اسی حیثیت میں رہے گا۔ بکۃ مبارکہ : روایت مذکورہ میں مقدس شہر کا ذکر ہے جسے قرآن مجید میں لفظ بکہ سے بھی یا دکیا گیا ہے اس سلسلہ کی کچھ تفصیلات ہم مولانا ابوالجلال صاحب ندوی کے قلم سے اپنے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ مولانا ندوہ کے ان فضلاءمیں سے ہیں جن کو قدیم عبرانی و سریانی زبانوں پر عبور حاصل ہے اور اس موضوع پر ان کے متعدد علمی مقالات علمی رسائل میں شائع شدہ موجودہ ہیں ہم بکہ مبارکہ کے عنوان سے آپ کے ایک علمی مقالہ کا ایک حصہ معارف ص2 جلد نمبر6 سے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ اہل علم اسے بغور مطالعہ فرمائیں گے۔ صاحب مقالہ مرحوم ہو چکے ہیں اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے آمین۔ توراۃ کے اند رمذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنا آبائی وطن چھوڑا تو ارض کنعان میں شکم کے مقام سے مورہ تک سفر کرتے رہے۔ ( تکوین 6112 ) شکم اسی مقام کا نام تھا جسے ان دنوں نابلس کہتے ہیں، مورہ کا مقام بحث طلب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب سفر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو یہاں ان کو خدواند عالم کی تجلی نظر آئی۔ مقام تجلی پر انہوں نے خدا کے لیے ایک قربان گاہ بنائی ( تکوین 7:12 ) توراۃ کے بیان کے مطابق اس مقام کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹوں پوتوں نے اور مقامات کو بھی عبادت گاہ مقرر کیا لیکن قدامت کے لحاظ سے اولین معبد یہی مور ہ کے پاس والا تھا۔ مورہ نام کے بائبل میں دو مقامات کا ذکر ہے ایک مورہ جلجال کے مقابل کنعانیوں کے سرزمین میں پردن کے پار مغرب جانب واقع تھا جہاں قاضی جدعون کے زمانہ میں بنواسرائیل اور بنو مدین سے جنگ ہوئی تھی۔ ( استشائ30:11 و قاصیون 10:7 ) دوسرے مورہ کا ذکر زبورمیں وارد ہے بائبل کے مترجموں نے اس مورہ کے ذکر کو پردہ خفا میں رکھنے کی انتہائی کوشش کی ہے لیکن حقیقت کا چھپانا نہایت ہی مشکل کام ہے حضرت داؤد علیہ السلام کے اشاروں کا اردو میں حسب ذیل ترجمہ کیا ہے : ”اے لشکروں کے خداوند ! تیرے مسکن کیا ہی دلکش ہیں، میری روح خداوند کے بارگاہوں کے لیے آرزو مند ہے، بلکہ گداز ہوتی ہے، میرا من اور تن زندہ خدا کے لیے للکارتا ہے، گورے نے بھی اپنی گھونسلا بنایا، اور ابابیل نے اپنا آشیانہ پایا جہاں وے اپنے بچے رکھیں، تیری قربان گاہوں کو اے لشکروں کے خدواند ! میرے بادشاہ میرے خدا۔ مبارک ہو وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری ستائش کرتے رہیں گے، سلاہ۔ مبارک ہیں وہ انسان جن کی قوت تجھ سے ہیں۔ ان کے دل میں تیری راہیں ہیں، وے بکا کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے ہیں، پہلی برسات اسے برکتوں سے ڈھانپ لیتی ہے۔ وہ قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ خدا کے آگے صیہون میں حاضر ہوتے ہیں۔ ( زبور نمبر 84 ) چھٹی اور ساتویں آیت کا ترجمہ انگریزی میں بھی تقریباً یہی کیا گیا ہے اور غالباً مترجمین نے ترجمہ میں ارادۃ غلطی سے کام لیا ہے، صحیح ترجمہ حسب دیل ہے : عبری بعمق ہبکہ، معین بسیتوہو۔ گم برکوف یعطنہ مودہ، بلکو محیل ال حیل براءال الوہم یصیون۔ وہ بکہ کے بطحا میں چلتے ہیں، ایک کنویں کے پاس پھرتے ہیں، جمیع برکتیں، مورہ کی ڈھانپ لیتی ہیں، وہ قوت سے قوت تک چلتے ہیں، خدائے صیہون سے ڈرتے ہیں۔ مورہ درحقیقت وہی لفظ ہے، جسے قرآن کریم میں ہم بصورت مروہ پاتے ہیں۔ خدا نے فرمایا ان الصفا و المروۃ من شعائر اللہ یقینا صفا اور مروہ اللہ کے مشاعر میں سے ہیں۔ زبور نمبر84 سے ایک بیت اللہ، ایک کنویں، اور ایک مروہ کا وادی بکہ میں ہونا صراحت کے ساتھ ثابت ہے، اس سے خانہ کعبہ کی بڑی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے، ہمارے پادری صاحبان کے نزدیک مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کعبہ کا احترام پیدا ہو، اس لیے انہوں نے زبور84 کے ترجمہ میں دانستہ غلطی سے کام لیا، بہرحال بائبل کے اندر مورہ نام کے دو مقامات کا ذکر ہے، جن میں سے ایک جلجال کے پاس یعنی ارض فسلطین میں تھا اور ایک وادی بکہ میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا معبد کس مورہ کے پاس تھا۔ 9ھ میں نجران کے نصرانیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا، ان نصرانیوں نے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی بہت سی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے، یہود مسلمانوں اور مشرکین کے ساتھ مذہبی بحثیں کی تھیں، ان بحثوں کے درمیان یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ ملت ابراہیم کا اولین معبد کون تھا، اس کے جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا و ہدی للعلمین۔ فیہ ایت بینت مقام ابراہیم و من دخلہ کان امنا و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا و من کفر فان اللہ غنی عن العلمین ( آل عمران : 196 ) بلاشبہ پہلا خانہ خدا جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے، جو بکہ میں واقع ہے، مبارک ہے اور سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں، یعنی مقام ابراہیم ہے۔ جو اس میں داخل ہوا اس نے امان پائی اور لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے بشرطیکہ راستہ چلنا ممکن ہو، اور اگر کوئی کافر کہا نہیں مانتا، یاد رہے اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔ جلجال کے قریب جو مورہ تھا اس کے پاس کسی مقدس معبد کا پوری تاریخ یہود کے کسی عہد میں سراغ نہیں ملتا، اس لیے یقینی طور پر ملت ابراہیم کا پہلا معبد وہی ہے جس کا ذکر زبور میں ہے اور یہی خانہ کعبہ ہے۔ خانہ کعبہ جس شہر یا علاقہ میں واقع ہے اس کا معروف ترین نام بکہ نہیں بلکہ مکہ ہے، قرآن پاک میں ایک جگہ مکہ کے نام سے بھی اس کا ذکر آیا ہے، زیر بحث آیت میں شہر کے معروف تر نام کی جگہ غیر مشہور نام کو ترجیح دی گئی ہے، اس کی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ اہل کتاب کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ مورہ جس کے پاس توراۃ کے اندر مذکور معبد اول کو ہونا چاہئے، جلجال کے پاس نہیں، بلکہ اس وادی بکہ میں واقع ہے، جس کا زبور میں ذکر ہے، دوسری یہ ہے کہ مکہ دراصل بکہ کے نام کی بدلی ہوئی صورت ہے، تحریری نام اس شہر کا بکہ تھا، لیکن عوام کی زبان نے اسے مکہ بنادیا۔ سب سے قدیم نوشتہ جس میں ہم کو ”مکہ“ کا نام ملتا ہے وہ قرآن مجید ہے لیکن بکہ کا نام قرآن سے پیشتر زبور میں ملتا ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب 35 برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی، اس زمانہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کے اندر سے چند پتھر ملے، جن پر کچھ عبارتیں منقوش تھیں، قریش نے یمن سے ایک یہودی اور ایک نصرانی راہب کو بلا کر وہ تحریریں پڑھوایں ایک پتھر کے پہلو پر لکھا ہوا تھا کہ انا للہ ذوبکۃ میں ہوں اللہ بکہ کا حاکم، حفظتہا بسبعۃ املاک حنفاء میں نے اس کی حفاظت کی سات خدا پرست فرشتوںسے، بارکت لاہلہا فی الماءو اللحم اس کے باشندوں کے لیے پانی اور گوشت میں برکت دی مختلف روایات میں کچھ اور الفاظ بھی ہیں لیکن ہم نے جتنے الفاظ نقل کئے ہیں ان پر سب روایتوں کا اتفاق ہے، روایات کے مطابق یہ نوشتہ کعبہ کی بنائے ابراہیم کے اندر ملا تھا۔ سچ ہے یہی گھر ہے کہ جس میں شوکت اسلام پنہاں ہے اسی سے صاحب فاران کی عظمت نمایاں ہے راز