You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ وَبِلَالٌ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ يَقُولُ أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَ اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ قَالَتْ وَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهِيَ أَوْبَأُ أَرْضِ اللَّهِ قَالَتْ فَكَانَ بُطْحَانُ يَجْرِي نَجْلًا تَعْنِي مَاءً آجِنًا
Narrated `Aisha: When Allah's Apostle reached Medina, Abu Bakr and Bilal became ill. When Abu Bakr's fever got worse, he would recite (this poetic verse): Everybody is staying alive with his People, yet Death is nearer to him than His shoe laces. And Bilal, when his fever deserted him, would recite: Would that I could stay overnight in A valley wherein I would be Surrounded by Idhkhir and Jalil (kinds of goodsmelling grass). Would that one day I could Drink the water of the Majanna, and Would that (The two mountains) Shama and Tafil would appear to me! The Prophet said, O Allah! Curse Shaiba bin Rabi`a and `Utba bin Rabi`a and Umaiya bin Khalaf as they turned us out of our land to the land of epidemics. Allah's Apostle then said, O Allah! Make us love Medina as we love Mecca or even more than that. O Allah! Give blessings in our Sa and our Mudd (measures symbolizing food) and make the climate of Medina suitable for us, and divert its fever towards Aljuhfa. Aisha added: When we reached Medina, it was the most unhealthy of Allah's lands, and the valley of Bathan (the valley of Medina) used to flow with impure colored water.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما بخار میں مبتلا ہوگئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بخار میں مبتلا ہوئے تویہ شعر پڑھتے : ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے اور بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے : کاش ! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس ) ہوتیں۔ کاش ! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش ! میں شامہ اور طفیل (پہاڑوں ) کو دیکھ سکتا۔ کہا کہ اے میرے اللہ ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ ا ور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ! اے اللہ ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت حیز کردے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ خدا کی سب سے زیادہ وبا والی سرزمین تھی۔ انہوں نے کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔
وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے، صحابہ کرام مہاجرین رضی اللہ عنہم اگرچہ برضا و رغبت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر اپنے وطن، اپنے گھر در سب کو چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے مگر شروع شروع میں ان کو وطن کی یاد آیا ہی کرتی تھی اور اس لیے بھی کہ ہر لحاظ سے اس وقت مدینہ کا ماحول ان کے لیے ناساز گار تھا، خاص طور پر مدینہ کی آب و ہوا ان دنوں ان کے موافق نہ تھی۔ اسی لیے وہ بخار میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے درد انگیز اشعار ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ شریف کا ماحول وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک ان کو کس قدر محبوب تھی مگر اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اشعار میں ذکر کردہ جلیل اور اذخر دو قسم کی گھاس ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی ہیں اور شامہ اور طفیل مکہ سے تین میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ مجنہ مکہ سے چند میل مر الظہران کے قریب ایک مقام ہے جہاں کا پانی بے حد شیریں ہے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے ان اشعار میں ان ہی سب کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے بلالی اشعار کا اردو ترجمہ اشعار میں یوں فرمایا : الا لیت شعری ہل ابیتن لیلۃ کاش ! پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات بواد و حولی اذخر و جلیل سب طرف میرے اگے ہوئےں واں جلیل اذخر نبات و ہل اردن یوما میاہ مجنۃ اور پیؤں پانی مجنہ کے جو آب حیات و ہل یبدون لی شامۃ و طفیل کاش ! پھر دیکھوں میں شامہ کاش ! پھر دیکھوں طفیل اللہ پاک نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی کہ مدینہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر لحاظ سے ایک جنت کا نمونہ شہر بن گیا اور اللہ نے اسے ہر قسم کی برکتوں سے نوازا اور سب سے بڑا شرف جو کائنات عالم میں اسے حاصل ہے وہ یہ کہ یہاں سرکار دو عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں۔ سچ ہے : اخترت بین اماکن الغبرائ دار الکرامۃ بقعۃ الزوراء ( صلی اللہ علیہ وسلم )