You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ قَالَ عَمْرٌو كَانَ هَا هُنَا رَجُلٌ اسْمُهُ نَوَّاسٌ وَكَانَتْ عِنْدَهُ إِبِلٌ هِيمٌ فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَاشْتَرَى تِلْكَ الْإِبِلَ مِنْ شَرِيكٍ لَهُ فَجَاءَ إِلَيْهِ شَرِيكُهُ فَقَالَ بِعْنَا تِلْكَ الْإِبِلَ فَقَالَ مِمَّنْ بِعْتَهَا قَالَ مِنْ شَيْخٍ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ وَيْحَكَ ذَاكَ وَاللَّهِ ابْنُ عُمَرَ فَجَاءَهُ فَقَالَ إِنَّ شَرِيكِي بَاعَكَ إِبِلًا هِيمًا وَلَمْ يَعْرِفْكَ قَالَ فَاسْتَقْهَا قَالَ فَلَمَّا ذَهَبَ يَسْتَاقُهَا فَقَالَ دَعْهَا رَضِينَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوَى سَمِعَ سُفْيَانُ عَمْرًا
Narrated `Amr: Here (i.e. in Mecca) there was a man called Nawwas and he had camels suffering from the disease of excessive and unquenchable thirst. Ibn `Umar went to the partner of Nawwas and bought those camels. The man returned to Nawwas and told him that he had sold those camels. Nawwas asked him, To whom have you sold them? He replied, To such and such Sheikh. Nawwas said, Woe to you; By Allah, that Sheikh was Ibn `Umar. Nawwas then went to Ibn `Umar and said to him, My partner sold you camels suffering from the disease of excessive thirst and he had not known you. Ibn `Umar told him to take them back. When Nawwas went to take them, Ibn `Umar said to him, Leave them there as I am happy with the decision of Allah's Apostle that there is no oppression .
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے کہا یہاں ( مکہ میں ) ایک شخص نواس نام کا تھا۔ اس کے پاس ایک بیمار اونٹ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گئے اور اس کے شریک سے وہی اونٹ خرید لائے۔ وہ شخص آیا تو اس کے ساجھی نے کہا کہ ہم نے تو وہ اونٹ بیچ دیا۔ اس نے پوچھا کہ کسے بیچا؟ شریک نے کہا کہ ایک شیخ کے ہاتھوں جو اس طرح کے تھے۔ اس نے کہا افسوس ! وہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ساتھی نے آپ کو مریض اونٹ بیچ دیا ہے اور آپ سے اس نے اس کے مرض کی وضاحت بھی نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ پھر اسے واپس لے جاؤ۔ بیان کیا کہ جب وہ اس کو لے جانے لگا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا رہنے دو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہیں ( آپ نے فرمایا تھا کہ ) ” لاعدوی “ ( یعنی امراض چھوت والے نہیں ہوتے ) علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان نے اس روایت کو عمرو سے سنا۔
اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔ دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔ اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔ اور اس سودے کو فسخ کردے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔ اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔