You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام بِسَارَةَ فَدَخَلَ بِهَا قَرْيَةً فِيهَا مَلِكٌ مِنْ الْمُلُوكِ أَوْ جَبَّارٌ مِنْ الْجَبَابِرَةِ فَقِيلَ دَخَلَ إِبْرَاهِيمُ بِامْرَأَةٍ هِيَ مِنْ أَحْسَنِ النِّسَاءِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ مَنْ هَذِهِ الَّتِي مَعَكَ قَالَ أُخْتِي ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهَا فَقَالَ لَا تُكَذِّبِي حَدِيثِي فَإِنِّي أَخْبَرْتُهُمْ أَنَّكِ أُخْتِي وَاللَّهِ إِنْ عَلَى الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ فَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ فَقَامَ إِلَيْهَا فَقَامَتْ تَوَضَّأُ وَتُصَلِّي فَقَالَتْ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ الْكَافِرَ فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ قَالَ الْأَعْرَجُ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَتْ اللَّهُمَّ إِنْ يَمُتْ يُقَالُ هِيَ قَتَلَتْهُ فَأُرْسِلَ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَامَتْ تَوَضَّأُ تُصَلِّي وَتَقُولُ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالَتْ اللَّهُمَّ إِنْ يَمُتْ فَيُقَالُ هِيَ قَتَلَتْهُ فَأُرْسِلَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا أَرْسَلْتُمْ إِلَيَّ إِلَّا شَيْطَانًا ارْجِعُوهَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَأَعْطُوهَا آجَرَ فَرَجَعَتْ إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَتْ أَشَعَرْتَ أَنَّ اللَّهَ كَبَتَ الْكَافِرَ وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, The Prophet Abraham emigrated with Sarah and entered a village where there was a king or a tyrant. (The king) was told that Abraham had entered (the village) accompanied by a woman who was one of the most charming women. So, the king sent for Abraham and asked, 'O Abraham! Who is this lady accompanying you?' Abraham replied, 'She is my sister (i.e. in religion).' Then Abraham returned to her and said, 'Do not contradict my statement, for I have informed them that you are my sister. By Allah, there are no true believers on this land except you and 1.' Then Abraham sent her to the king. When the king got to her, she got up and performed ablution, prayed and said, 'O Allah! If I have believed in You and Your Apostle, and have saved my private parts from everybody except my husband, then please do not let this pagan overpower me.' On that the king fell in a mood of agitation and started moving his legs. Seeing the condition of the king, Sarah said, 'O Allah! If he should die, the people will say that I have killed him.' The king regained his power, and proceeded towards her but she got up again and performed ablution, prayed and said, 'O Allah! If I have believed in You and Your Apostle and have kept my private parts safe from all except my husband, then please do not let this pagan overpower me.' The king again fell in a mood of agitation and started moving his legs. On seeing that state of the king, Sarah said, 'O Allah! If he should die, the people will say that I have killed him.' The king got either two or three attacks, and after recovering from the last attack he said, 'By Allah! You have sent a satan to me. Take her to Abraham and give her Ajar.' So she came back to Abraham and said, 'Allah humiliated the pagan and gave us a slave-girl for service.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام نے سارہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ( نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔ خدا کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ رضی اللہ عنہا کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا۔ اس وقت حضرت سارہ رضی اللہ عنہا وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ ” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول ( ابراہیم علیہ السلام ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ “ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا وضو کرکے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں ” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر ( حضرت ابراہیم علیہ السلام ) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔ “ چنانچہ وہ پھر تھرایا، کانپا اور اس کے پاؤس زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ “ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( حضرت ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر حضرت سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔
زمین کنعان سے مصر کا یہ سفر اس لیے ہوا کہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں آگیاتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مجبور ہو کر اپنی بیوی حضرت سارہ رضی اللہ عنہا اور بھتیجے لوط علیہ السلام اور بھیڑ بکریوں سمیت مصر میں پہنچ گئے۔ ان دنوں مصر میں فرعون رقیون نامی حکمرانی کر رہا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ رضی اللہ عنہا بے حد حسین تھیں۔ اور وہ بادشاہ ایسی حسین عورتوں کی جستجومیں رہا کرتا تھا۔ ا س لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو ابراہیم علیہ السلام کی بہن ظاہر کریں۔ جب فرعون مصر نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہ کے حسن کا چرچا سنا تب اس نے ان کو بلوابھیجا اور فعل بد کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی بد دعا سے وہ برائی پر قادر نہ ہوسکا۔ بلکہ زمین میں غرق ہونے لگا۔ آخر اس کے دل پر ان کی عظمت نقش ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے معافی مانگی اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیا اور اپنے خلوص اور عقیدت کے اظہار میں اپنی بیٹی ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو ان کی نذر کر دیا تاکہ وہ سارہ رضی اللہ عنہا جیسا خدا رسیدہ خاتون کی خدمت میں رہ کر تعلیم اور تربیت حاصل کرے اور کسی وقت اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے نبی کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہو۔ یہودیوں کی کتاب برشیث لیامیں ذکر ہے کہ ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ ایسا ہی طبری، خمیس اور قسطلانی نے ذکر کیا ہے مگر یہ نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض بد باطن یہود کی حاسدانہ تحریرات میں ان کو لونڈی کہا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر اس حدیث میں وارد لفظ ”ولیدۃ“ کا ترجمہ لونڈی کر دیا ہے حالانکہ قرآن و حدیث کی اصطلاح عام میں غلام اور لونڈی کے لیے ملک یمین کا لفظ ہے جیسا کہ آیت قرآن وما ملکت ایمانکم سے ظاہر ہے۔ لغت عرب میں جاریہ اور ولیدہ کے الفاظ عام لڑکی کے معنوں میں آتے ہیں۔ عربی کی بائیبل میں سب جگہ حضرت ہاجرہ کے واسطے جاریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے انگریزی بائیبل میں سب مقامات میں میڈ کا لفظ ہے جس کے معنی وہی ہیں جو ”جاریہ“ اور ”ولیدۃ“ کے ہیں یعنی لڑکی۔ ابی سلومر اسحاق جو ایک یہودی عالم ہیں وہ پیدائش1-16 میں لکھتے ہیں کہ جب فرعون مصری نے نبی کی کرامتوں کو جو سارہ کی وجہ سے ظاہر ہوئیں، دیکھا تو اس نے کہا کہ بہتر ہے میری بیٹی اس کے گھر میں خادمہ ہو کر رہے وہ اس سے بہتر ہوگی کہ کسی دوسرے گھر میں وہ ملکہ بن کر رہے۔ چنانچہ حضرت ہاجرہ نے ابراہیمی گھرانہ میں پوری تربیت حاصل کی اور پچاسی سال کی عمر میں جب کہ آپ اولاد سے مایوس ہو رہے تھے حضرت سارہ نے ان سے خود کہا کہ ہاجرہ سے شای کر لو شاید اللہ پاک ان ہی کے ذریعہ تم کو اولاد عطا کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شادی کے بعد حضرت ہاجرہ حاملہ ہو گئیں اور ان کو خواب میں فرشتہ نے بشارت دی کہ تو ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا دکھ سن لیا۔ وہ عربی ہوگا ا س کا ہاتھ سب کے خلاف ہوگا اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔ ( تورات پیدائش 12-11-16 ) خداوند نے یہ بھی فرمایا کہ دیکھ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے اسماعیل کے حق میں میں نے تیری دعا سن لی دیکھو میں اس کو برکت دوں گا اور اسے آبرو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔ ( تورات پیدائش 20-15-17 ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھیاسی سال کی عمر تھی کہ ان کے بیٹے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل کے حق میں یہ بشارت توراۃ سفر تکوین باب 17درس 20 میں موجود ہے۔ یہودیوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے لونڈی ہونے پر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے دلیل لی ہے جو توراۃ میں مذکور ہے کہ جب حضرت سارہ رضی اللہ عنہا حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو گئیں تو انہوں نے اس ڈر سے کہ کہیں حضرت ہاجرہ کا فرزند اسماعیل علیہ السلام ان کے فرزند اسحاق علیہ السلام کے ساتھ ابراہیمی ترکہ کا وارث بن جائے یہ کہا کہ اس لونڈی کو اور اس کے بچے کو یہاں سے نکال دے۔ یہ لفظ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے خفگی کے طور پر استعمال کیا تھا ورنہ ان کو معلوم تھا کہ شریعت ابراہیمی میں لونڈی غلام مالک کے ترکہ میں وارث نہیں ہوا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا واقعی لونڈی ہوتی تو حضرت سارہ رضی اللہ عنہا ایسا غلط بیانی کیوں کرتی جب کہ وہ ابراہیمی شریعت کے احکامات سے پورے طور پر واقف تھیں۔ پس خود توراۃ کے اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا لونڈی نہ تھی بلکہ آزاد تھی۔ اسی لیے حضرت سارہ کو ان کے لڑکے کے وارث ہونے کا خطرہ ہوا اور ان کو دور کرنے کا مطالبہ کیا۔ خلاصہ یہی ہے کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام شاہ مصر کی بیٹی تھی جسے بطور خادمہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے حرم نبوت میں بیوی بنانے کے لیے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ کیا گیا تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے منعقدہ باب میں جس کے تحت یہ حدیث آئی ہے کئی باتیں ملحوظ کی گئی ہیں جس کی تشریح علامہ قسطلانی یوں فرماتے ہیں آجر بہمزۃ ممدودۃ بدل الہاءو جیم مفتوحۃ فراءو کان ابو آجر من ملوک القبط یعنی آجر ہمزہ ممدوہ کے ساتھ ہا کے بدلہ میں ہے اور جیم مفتوحہ کے بعد را ہے۔ اور آجر کا باپ فرعون مصر قبطی بادشاہوں میں سے تھا۔ یہاں علامہ قسطلانی نے صاف لفظوں میں بتلایا ہے کہ حضرت ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔ ولیدہ کی تحقیق میں آپ فرماتے ہیں و الولیدۃ الجاریۃ للخدمۃ سواءکانت کبیرۃ او صغیرۃ و فی الاصل الولید لطفل و الانثی ولیدۃ و الجمع و لائد و المراد بہا آجر المذکورہ یعنی لفظ ولیدہ لڑکی پر بولا جاتا ہے جو بطور خادمہ ہو عمر میں وہ صغیر ہو یا کبیر اور دراصل ولید لڑکے کو اور ولیدہ لڑکی کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ولائد آتی ہے اور یہاں اس لڑکی سے مراد آجر مذکور ہیں جو ہاجرہ علیہا السلام سے مشہور ہیں۔ آگے علامہ فرماتے ہیں و موضع الترجمۃ اعطوہا آجر و قبول سارۃ منہ و امضاءابراہیم ذلک ففیہ صحۃ ہبۃ الکافر و قبول ہدیۃ السلطان الظالم و ابتلاءالصالحین لرفع درجاتہم و فیہ اباحۃ المعاربض و انہا مندوحۃ عن الکذب و ہذا الحدیث اخرجہ ایضا فی الہبۃ و الاکراہ و احادیث الانبیاء ( قسطلانی ) یعنی یہاں ترجمۃ الباب الفاظ اعطوھاآجر سے نکلتا ہے کہ ا س کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ علیہا السلام کو بطور عطیہ پیش کرنے کا حکم دیا اور سارہ علیہا السلام نے اسے قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس معاملہ کو منظور فرمایا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کافر کسی چیز کو بطور ہبہ کسی کو دے تو اس کا یہ ہبہ کرنا صحیح مانا جائے گا اور ظالم بادشاہ کا ہدیہ قبول کرنا بھی ثابت ہوا۔ اور نیک لوگوں کا ظالم بادشاہوں کی طرف سے ابتلا میں ڈالا جانا بھی ثابت ہوا۔ اس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسے آزمائشی مواقع پر بعض غیر مباح کنایات و تعریضات کا استعمال مباح ہوجاتا ہے اور ان کو جھوٹ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سید المحدثین حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی جامع الصحیح میں اور بھی کئی مقامات پر نقل فرمایا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ خلاصۃ المرام یہ کہ حدیث ہذا میں وارد لفظ ولیدہ لونڈی کے معنی میں نہیں، بلکہ لڑکی کے معنی میں ہے۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام شاہ مصر کی بیٹی تھیں جسے اس نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو برکت کے لیے دے دیا تھا، لہٰذا یہود کا حضرت اسماعیل کو لونڈی کا بچہ کہنا محض جھوٹ اور الزام ہے۔ یہاں سر سید نے خطبات احمدیہ میں کلکتہ کے ایک مناظرہ کا ذکر کیا ہے جو اسی موضوع پر ہوا جس میں علماءیہود نے بالاتفاق تسلیم کیا تھا کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہ تھیں بلکہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے یہاں لفظ ولیدہ کا ترجمہ لونڈی کیا ہے جو لڑکی ہی کے معنوں میں ہے، ہندوستان کے بعض مقامات پر لڑکی کو لونڈیاں اور لڑکے کو لونڈا بولتے ہیں۔ ترجمۃ الباب میں چوں کہ لفظ ہبہ آیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ ہبہ لغوی طور پر مطلق بخشش کو کہتے ہیں۔ اللہ پاک کا ایک صفاتی نام وہاب بھی ہے۔ یعنی بے حساب بخشش کرنے والا۔ شرع محمدی میں ہبہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کو برضا و رغبت اور بلا معاوضہ منتقل کردینا، منتقل کرنے والے کو واہب اور جس کے نام منتقل کیا جائے اسے موہوب لہ کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس انتقال کو خود موہوب لہ یا اس کی طرف سے کوئی اس کا ذمہ دار آدمی واہب کی زندگی ہی میں قبول کرلے۔ نیز ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا عاقل بالغ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ شئے موہوب اس شخص کے قبضہ میں دی جائے جس کے نام پر ہبہ کیا جارہا ہے۔ ہبہ کے بارے میں بہت سی شرعی تفصیلات ہیں جو کتب فقہ میں تفصیل سے موجود ہیں۔ اردو زبان میں آنریبل مولوی سید امیر علی صاحب ایم، اے بیرسٹرایٹ لاءنے جامع الاحکام فی فقہ الاسلام کے نام سے ایک مفصل کتاب مسلمانوں کے قوانین مذہبی پر لکھی ہے اس میں ہبہ کے متعلق پوری تفصیلات حوالہ قلم کی گئی ہیں اور عدالت ہندیہ میں جو پرسنل لاءآف دی محمڈنس مسلمانوں کے لیے منظور شدہ ہے ہر ہر جزئی میں پوری وضاحت سے احکام ہبہ کو بتلایا گیا ہے۔