You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْمَرَ أَرْضًا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ فَهُوَ أَحَقُّ قَالَ عُرْوَةُ قَضَى بِهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِلَافَتِهِ
Narrated `Aisha: The Prophet said, He who cultivates land that does not belong to anybody is more rightful (to own it). `Urwa said, `Umar gave the same verdict in his Caliphate.
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن ابی جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عاءشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے کوءی ایسی زمین آباد کی، جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حق دار ہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات سے یہ امر ظاہر ہے کہ ایسی بنجر زمینوں کی آبادکاری ، پھر ان کی ملکیت ، یہ جملہ امور حکومت وقت کی اجازت سے وابستہ ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا تھا آج بھی بیشتر ممالک میں یہی قانون نافذ ہے ۔ جو غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ عروہ کے اثر کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں وصل کیا ۔ اور اس کی دوسری روایت میں مذکور ہے جس کو ابوعبید قاسم بن سلام نے کتاب الاموال میں نکالا کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںزمینوں کو روکنے لگے ، تب آپ نے یہ قانون نافذ کیا کہ جو کوئی ناآباد زمین کو آباد کرے گا وہ اس کی ہو جائے گی ۔ مطلب یہ تھا کہ محض قبضہ کرنے یا روکنے سے ایسی زمین پر حق ملکیت ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کو آباد نہ کرے ۔ حافظ صاحب نے بحوالہ طحاوی نقل فرمایا ہے کہ خرج رجل من اہل البصرۃ یقال لہ ابوعبداللہ الی عمر فقال ان بارض البصرۃ ارضا لا تضر باحد من المسلمین و لیست بارض خراج فان شئت ان تقطعنیہا اتخذہا قضبا و زیتونا فکتب عمر الی ابی موسیٰ ان کانت کذلک فاقطعہا ایاہ ( فتح ) یعنی بصرہ کا باشندہ ابوعبداللہ نامی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتلایا کہ بصرہ میں ایک ایسی زمین پڑی ہوئی ہے کہ جس سے کسی مسلمان کو کوئی ضرر نہیں ہے ۔ نہ وہ خراجی ہے ۔ اگر آپ اسے مجھے دے دیں تو میں اس میں زیتون وغیرہ کے درخت لگالوں گا ۔ آپ نے عامل بصرہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جاکر اس زمین کو دیکھیں ۔ اگر واقعہ یہی ہے تو اسے اس شخص کو دے دیں ۔ معلوم ہوا کہ فالتو زمین کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے ۔