You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلاَمًا، فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ»، قَالَ: لاَ، قَالَ [ص:158]: «فَارْجِعْهُ»
Narrated An-Nu`man bin Bashir: that his father took him to Allah's Apostle and said, I have given this son of mine a slave. The Prophet asked, Have you given all your sons the like? He replied in the negative. The Prophet said, Take back your gift then.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے، وہ حمید بن عبدالرحمن اور محمد بن نعمان بن بشیر سے اور ان سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور ہبہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکوں کو بھی دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ پھر ( ان سے بھی ) واپس لے لے۔
معلوم ہوا کہ اولاد کے لیے ہبہ یا عطیہ کے سلسلے میں انصاف ضروری ہے جو دیا جائے سب کو برابر برابر دیا جائے، ورنہ ظلم ہوگا۔ والد کے لیے ثابت ہوا کہ وہ اولاد سے اپنا عطیہ واپس بھی لے سکتا ہے اور اولاد کے مال میں سے ضرورت کے وقت دستور کے موافق کھا بھی سکتا ہے۔ ابن حبان اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے۔ آپ نے فرمایا، میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی قول ہے کہ اولاد میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ نعمان کے باپ نے اس کو باغ دیا تھا اور اکثر روایتوں میں غلام مذکور ہے۔ حافظ نے کہا، طاؤس اور ثوری اور اسحاق بھی امام احمد کے ساتھ متفق ہیں۔ بعض مالکیہ کہتے ہیں کہ ایسا ہبہ ہی باطل ہے اور امام احمد صحیح کہتے ہیں پر رجوع واجب جانتے ہیں اور جمہور کا قول یہ ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں عدل اور انصاف کرنا مستحب ہے۔ اگر کسی اولاد کو زیادہ دے تو ہبہ صحیح ہوگا لیکن مکروہ ہوگا، حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر نے یہاں عمل الخلیفتین کو نقل کیا ہے اور بتلایا ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں مساوات کا حکم استحباب کے لیے ہے۔ مؤطا میں سند صحیح کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض وفات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا، انی کنت نحلت نحلا فلولا کنت اخترتیہ لکان لک و انما ہو الیوم للوارث یعنی میں نے تجھ کوکچھ بطور بخشش دیناچاہا تھا، اگر تم اس کو قبول کرلیتیں تو وہ تمہارا ہوجاتا اور اب تو وہ وارثوں ہی میں تقسیم ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ بطور بخشش دیا تھا۔ مانعین نے ان کا یہ جواب دیا ہے کہ شیخین کے ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے سب راضی تھے۔ اس صورت میں جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ بہر حال بہتر و اولیٰ مساوات ہی ہے۔