You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ مُحَارِبٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ، فَقَضَانِي وَزَادَنِي»
Jabir (ra) said, I went to the Prophet (saws) in the mosque and he paid me my right and gave me more than he owed me.
اور ثابت بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( سفر سے لوٹ کر ) مسجد میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میرے اونٹ کی قیمت ) ادا کی اور کچھ زیادہ بھی دیا۔
جو چیز قبضہ میں ہو اس کا ہبہ تو بالاتفاق درست ہے اور جو چیز قبضے میں نہ ہو اس کا ہبہ اکثر علماءکے نزدیک جائز نہیں ہے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا جواز اسی طرح اس مال کے ہبہ کا جواز جو تقسیم نہ ہوا ہو، باب کی حدیث سے نکالا اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ کا مال جو ابھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا تھا، نہ تقسیم ہوا تھا، ہوازن کے لوگوں کو ہبہ کردیا۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ قبضہ تو ہوگیا تھا کیوں کہ یہ اموال مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے، گو تقسیم نہ ہوئے تھے۔ ثابت بن محمد کا قول مذکوربقول بعض تعلیق نہیں ہے۔ کیوں کہ بعض نسخوں میں یوں ہی حدثنا ثابت یعنی امام بخاری کہتے ہیں ہم سے ثابت نے بیان کیا۔ دوسری روایت میں جابر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شاید حضر مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ ہے کہ وہ اونٹ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ہبہ کردیا تو قبضہ سے پہلے ہبہ ثابت ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کو جو سونا یا چاندی قیمت سے زیادہ دلوایا اسے جابر رضی اللہ عنہ نے بطور تبرک ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور خرچ نہ کیا۔ یہاں تک کہ یوم الحرۃ آیا۔ یہ لڑائی 63ھ میں ہوئی۔ جب یزیدی فوج نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا۔ حرہ مدینہ کا ایک میدان ہے وہاں یہ لڑائی ہوئی تھی۔ اسی جنگ میں ظالموں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس تبرک نبوی کو چھین لیا۔ آج کل بھی جگہ جگہ بہت سی چیزیں لوگوں نے تبرکات نبوی کے نام سے رکھی ہوئی ہیں۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک بتلائے جاتے ہیں اور کہیں قدم مبارک کے نشان وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ سب بے سند چیزیں ہیں اور ان کے بارے میں خطرہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ افتراءہوں اور ایسے مفتری اپنے آپ کو زندہ دوزخی بنالیں۔ جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے اوپر کوئی افتراءباندھا وہ زندہ دوزخی ہے۔