You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ البَيْتِ، فَنَحَرَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ بِالحُدَيْبِيَةِ، وَقَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يَعْتَمِرَ العَامَ المُقْبِلَ، وَلاَ يَحْمِلَ سِلاَحًا عَلَيْهِمْ إِلَّا سُيُوفًا [ص:186] وَلاَ يُقِيمَ بِهَا إِلَّا مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ العَامِ المُقْبِلِ، فَدَخَلَهَا كَمَا كَانَ صَالَحَهُمْ، فَلَمَّا أَقَامَ بِهَا ثَلاَثًا أَمَرُوهُ أَنْ يَخْرُجَ فَخَرَجَ»
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle set out for the `Umra but the pagans of Quraish prevented him from reaching the Ka`ba. So, he slaughtered his sacrifice and got his head shaved at Al-Hudaibiya, and agreed with them that he would perform `Umra the following year and would not carry weapons except swords and would not stay in Mecca except for the period they allowed. So, the Prophet performed the `Umra in the following year and entered Mecca according to the treaty, and when he stayed for three days, the pagans ordered him to depart, and he departed.
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا ، کہا ہم سے شریح بن نعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا ، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے ، تو کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا ۔ اس لیے آپ نے قربانی کا جانور حدیب یہ میں ذبح کردیا اور سر بھی وہیں منڈوالیا اور کفار مکہ سے آپ نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کرسکیں گے ۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے ۔ ( اور وہ بھی نیام میں ہوں گی ) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہرسکیں گے ۔ ( یعنی تین دن ) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے ، پھر جب تین دن گزرچکے تو قریش نے مکے سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے ۔
اگرچہ مشرکین کی یہ شرطیں بالکل نامناسب تھیں، مگر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مصالح کے پیش نظر ان کو تسلیم فرمالیا۔ پس مصلحتاً دب کر صلح کرلینا بھی بعض مواقع پر ضروری ہوجاتا ہے۔ اسلام سراسر صلح کا حامی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص فساد کو مٹانے کے لیے اپنا حق چھوڑ کر بھی صلح کرلے، اللہ اس سے بہت ہی بہتر اجر عطا کرتا ہے۔ حضرت حسن اور حضرت امیر معاوریہ رضی اللہ عنہما کی صلح بھی اسی قسم کی تھی۔