You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ فِي العِيدَيْنِ، فَقَدِمَتِ امْرَأَةٌ، فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ عَنْ أُخْتِهَا، وَكَانَ زَوْجُ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، وَكَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتٍّ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الكَلْمَى، وَنَقُومُ عَلَى المَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لاَ تَخْرُجَ؟ قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا وَلْتَشْهَدِ الخَيْرَ وَدَعْوَةَ المُسْلِمِينَ»، فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ، سَأَلْتُهَا أَسَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بِأَبِي، نَعَمْ، وَكَانَتْ لاَ تَذْكُرُهُ إِلَّا قَالَتْ: بِأَبِي، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «يَخْرُجُ العَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الخُدُورِ، أَوِ العَوَاتِقُ ذَوَاتُ الخُدُورِ، وَالحُيَّضُ، وَلْيَشْهَدْنَ الخَيْرَ، وَدَعْوَةَ المُؤْمِنِينَ، وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ المُصَلَّى»، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَقُلْتُ الحُيَّضُ، فَقَالَتْ: أَلَيْسَ تَشْهَدُ عَرَفَةَ، وَكَذَا وَكَذَا
Narrated Aiyub: Hafsa said, 'We used to forbid our young women to go out for the two `Id prayers. A woman came and stayed at the palace of Bani Khalaf and she narrated about her sister whose husband took part in twelve holy battles along with the Prophet and her sister was with her husband in six (out of these twelve). She (the woman's sister) said, We used to treat the wounded, look after the patients and once I asked the Prophet, 'Is there any harm for any of us to stay at home if she doesn't have a veil?' He said, 'She should cover herself with the veil of her companion and should participate in the good deeds and in the religious gathering of the Muslims.' When Um `Atiya came I asked her whether she had heard it from the Prophet. She replied, Yes. May my father be sacrificed for him (the Prophet)! (Whenever she mentioned the Prophet she used to say, 'May my father be sacrificed for him) I have heard the Prophet saying, 'The unmarried young virgins and the mature girl who stay often screened or the young unmarried virgins who often stay screened and the menstruating women should come out and participate in the good deeds as well as the religious gathering of the faithful believers but the menstruating women should keep away from the Musalla (praying place).' Hafsa asked Um `Atiya surprisingly, Do you say the menstruating women? She replied, Doesn't a menstruating woman attend `Arafat (Hajj) and such and such (other deeds)?
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سختیانی سے، وہ حفصہ بنت سیرین سے، انھوں نے فرمایا کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انھوں نے اپنی بہن ( ام عطیہ ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبر گیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ ( نماز عید کے لیے ) باہر نہ نکلے۔ آپ نے فرمایا اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، ( یعنی عیدگاہ جائیں ) پھر جب ام عطیہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا، میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو۔ ( انھوں نے کہا ) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔
اجتماع عیدین میں عورتیں ضرور شریک ہوں: اجتماع عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوںتک کے لیے تاکید فرمائی کہ وہ بھی اس ملی اجتماع میں شریک ہوکر دعاؤں میں حصہ لیں اور حالت حیض کی وجہ سے جائے نماز سے دوررہیں، ان مستورات کے لیے جن کے پاس اوڑھنے کے لیے چادربھی نہیں، آپ نے اس اجتماع سے پیچھے رہ جانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ فرمایاکہ اس کی ساتھ والی دوسری عورتوں کو چاہئیے کہ اس کے لیے اوڑھنی کا انتظام کردیں۔ روایت مذکورہ میں یہاں تک تفصیل موجود ہے کہ حضرت حفصہ نے تعجب کے ساتھ ام عطیہ سے کہا کہ حیض والی عورتیں کس طرح نکلیں گی جب کہ وہ نجاست حیض میں ہیں۔ اس پر حضرت ام عطیہ نے فرمایاکہ حیض والی عورتیں حج کے دنوں میں آخر عرفات میں ٹھہرتی ہیں، مزدلفہ میں رہتی ہیں، منیٰ میں کنکریاں مارتی ہیں، یہ سب مقدس مقامات ہیں، جس طرح وہ وہاں جاتی ہیں اسی طرح عیدگاہ بھی جائیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی واضح احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جن سب کا ذکر موجب تطویل ہوگا۔ مگرتعجب ہے فقہائے احناف پر جنھوں نے اپنے فرضی شکوک واوہام کی بنا پر صراحتاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ فقہائے احناف کا فتویٰ صاحب ایضاح البخاری کے لفظوں میں پیش کردیا جائے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: “ اب عیدگاہ کا حکم بدل گیا ہے پہلے عیدگاہ مسجدکی شکل میں نہ ہوتی تھی، اس لیے حائضہ اور جنبی کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی، اب عیدگاہیں مکمل مسجد کی صورت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کا حکم بعینہ مسجد کا حکم ہے۔ اسی طرح دورِحاضر میں عورتوں کو عیدگاہ کی نماز میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔ صدراول میں اول تو اتنا اندیشہ فتنہ وفساد کا نہیں تھا، دوسرے یہ کہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا،مرد وعورت سب مل کر عیدکی نماز میں شرکت کریں۔ اب فتنہ کا بھی زیادہ اندیشہ ہے اور اظہارشان وشوکت کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے روکا جائے گا۔ متاخرین کا یہی فیصلہ ہے۔ الی آخرہ ( ایضاح البخاری، جز11،ص: 129 ) منصف مزاج ناظرین اندازہ فرماسکیں گے کہ کس جرات کے ساتھ احادیث صحیحہ کے خلاف فتویٰ دیا جارہا ہے، جس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگرعیدگاہ کھلے میدان میں ہو اور اس کی تعمیر مسجدجیسی نہ ہو اور پر دے کا انتظام اتنا بہتر کردیا جائے کہ فتنہ وفساد کا مطلق کوئی خوف نہ ہو اور اس اجتماع مرد وزن سے اسلام کی شان وشوکت بھی مقصود ہو تو پھر عورتوں کا عید کے اجتماع میں شرکت کرناجائز ہوگا۔ الحمد للہ کہ جماعت اہل حدیث کے ہاں اکثر یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ بیشتر کھلے میدانوں میں عمدہ انتظامات کے ساتھ مع اپنے اہل وعیال عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اسلامی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی عیدگاہوں میں کبھی فتنہ وفساد کا نام تک بھی نہیں آیا۔ برخلاف اس کے ہمارے بہت سے بھائیوں کی عورتیں میلوں عرسوں میں بلاحجاب شریک ہوتی ہیں اور وہاں نت نئے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے محترم فقہائے عظام وہاں عورتوں کی شرکت پر اس قدر غیظ وغضب کا اظہار کبھی نہیں فرماتے جس قدر اجتماع عیدین میں مستورات کی شرکت پر ان کی فقاہت کی باریکیاں مخالفانہ منظرعام پر آجاتی ہیں۔ پھر یہ بھی تو غورطلب چیز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ مستورات، اصحاب کرام، انصار و مہاجرین کی مستورات درجہ شرافت میں جملہ مستورات امت سے افضل ہیں، پھر بھی وہ شریک عیدین ہوا کرتی تھیں جیساکہ خود فقہائے احناف کو تسلیم ہے۔ ہماری مستورات توبہرحال ان سے کمترہیں وہ اگر با پردہ شریک ہوں گی تو کیوں کر فتنہ وفساد کی آگ بھڑکنے لگے گی یا ان کی عزت و آبرو پر کون سا حرف آجائے گا۔ کیاوہ قرن اوّل کی صحابیات سے بھی زیادہ عزت رکھتی ہیں؟ باقی رہا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد : لورای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم مااحدث النساءالخ کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کے نوپیداحالات کو دیکھتے تو ان کو عیدگاہ سے منع کردیتے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے ہے جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر تھی، اور ظاہر ہے کہ ان کی اس رائے سے حدیث نبوی کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بیان لفظ لو ( اگر ) کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ کہ ارشاد نبوی آج بھی اپنی حالت پر واجب العمل ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں پردہ کے ساتھ عورتوں کا شریک ہونا سنت ہے۔ وباللہ التوفیق۔