You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الغَنَمِ، فَقَالَ: «خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ» وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الإِبِلِ، فَغَضِبَ وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَقَالَ: «مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا الحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ، تَشْرَبُ المَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ، حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا» وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: «اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، وَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا، وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ» قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ - قَالَ سُفْيَانُ: وَلَمْ أَحْفَظْ عَنْهُ شَيْئًا غَيْرَ هَذَا - فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ حَدِيثَ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ فِي أَمْرِ الضَّالَّةِ، هُوَ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ يَحْيَى: وَيَقُولُ رَبِيعَةُ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ فَقُلْتُ لَهُ
Narrated Yazid: (the Maula of Munba'ith) The Prophet was asked regarding the case of a lost sheep. He said, You should take it, because it is for you, or for your brother, or for the wolf. Then he was asked about a lost camel. He got angry and his face became red and he said (to the questioner), You have nothing to do with it; it has its feet and its water container with it; it can go on drinking water and eating trees till its owner meets it. And then the Prophet was asked about a Luqata (money found by somebody). He said, Remember and recognize its tying material and its container, and make public announcement about it for one year. If somebody comes and identifies it (then give it to him), otherwise add it to your property.
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے کہا ، ان سے سفیان بن عیینہ نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے منبعث کے مولیٰ یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئی ہوئی بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو ، کیونکہ یا وہ تمہاری ہوگی ( اگر ایک سال تک اعلان کے بعداس کا مالک نہ ملا ) ۔ تمہارے کسی بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑ یے کی ہوگی ( اگر انہی جنگلوں میں پھرتی رہی ) اور انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئے ہوئے اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غصہ ہوگئے اور غصہ کی وجہ سے آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے اور آپ نے فرمایا ، تمہیں اس سے کیا غرض ! اس کے پا س ( مضبوط ) کھر ہیں ( جس کی وجہ سے چلنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی ) اس کے پاس مشکیزہ ہے جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے متعلق سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا کہ اس کی رسی کا ( جس سے وہ بندھا ہو ) اور اس کے ظرف کا ( جس میں وہ رکھا ہو ) اعلان کرو اور اس کا ایک سال تک اعلان کرو ، پھر اگر کوئی ایسا شخص آجائے جو اسے پہچانتا ہو ( اور اس کا مالک ہو تو اسے دے دو ) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو ۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ پھر میں ربیعہ بن عبدالرحمن سے ملا اور مجھے ان سے اس کے سوا اور کوئی چیز محفوظ نہیں ہے ۔ میں نے ان سے پوچھا تھاکہ گم شدہ چیزوں کے بارے میں منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ زید بن خالد سے منقول ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ( سفیان نے بیان کیا کہ ہاں ) یحییٰ نے بیان کیاکہ ربیعہ نے منبعث کے مولیٰ یزید سے بیان کیا ، ان سے زید بن خالد نے ۔ سفیان نے بیان کیاکہ پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق پوچھا ۔
یعنی اونٹ کے پکڑنے کی ضرورت ہے نہ اس کوکھانے پینے میں کسی کی مدد اور حفاظت کی ضرورت ہے نہ بھیڑیے کا ڈر ہے۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ بعضوں نے کہا اس حدیث سے یہ نکلا کہ دوسرے کے مال میں تصرف کرنا اس وقت جائز نہیں جب تک اس کے ضائع ہونے کا ڈر نہ ہو پس اسی طرح مفقود کی عورت میں بھی تصرف کرنا جائز نہیں جب تک اس کے خاوند کی موت متحقق نہ ہو۔ میں ( وحیدالزماں مرحوم ) کہتاہوںیہ قیاس صحیح نہیں ہے اور حضرت عمر ، حضرت عثمان ، ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، ابن مسعود اور متعدد صحابہ رضی اللہ علیہم سے باسانید صحیحہ مروی ہے، ان کو سعید بن منصور اور عبدالرزاق نے نکالا کہ مفقود کی عورت چار برس تک انتظار کرے۔ اگراس عرصہ تک اس کی خبر نہ معلوم ہو تو اس کی عورت دوسرا نکاح کرلے اور ایک جماعت تابعین جیسے ابراہیم نخعی اور عطاءاورزہری اور مکحول اور شعبی اسی کے قائل ہوئے ہیں اورامام احمد اوراسحاق نے کہا اس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں ۔ مدت اس کے واسطے ہے جو لڑائی میںگم ہو یا دریا میں اور حنفیہ اور شافعیہ نے کہا مفقود کی عورت اس وقت تک نکاح نہ کرے جب تک کہ خاوند کا زندہ یا مردہ ہونا ظاہر نہ ہو اور حنفیہ نے اس کی تقریر نوے برس یاسو برس یا 120 برس کی ہے اور دلیل لی ہے اس مرفوع حدیث سے کہ مفقود کی عورت اسی کی عورت ہے یہاں تک کہ حال کھلے ۔ ابو عبیدہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اور عبدالرزاق نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نقل کیا ہے مگر مرفوع حدیث ضعیف اور صحیح اس کا وقف ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت کی مدت منقول ہے اور علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے تو صحیح وہی چارسال کی مدت ہوئی اور اگر عورت کو حنفیہ یا شافعیہ یا حنابلہ کے مذہب کے موافق ادھر رکھا جائے تو اس میں صریح ضرر پہنچانا ہے پس قاضی مفقود کی عورت کا نکاح فسخ کر سکتا ہے جب دیکھے کہ عورت کو تکلیف ہے یا اس کو نان ونفقہ دینے والا کوئی نہیں اور حنفیہ اور شافعیہ اور حنابلہ کے مذہب کے موافق تو شاید ہی دنیا میں کوئی عورت نکلے جو ساری عمر بن شوہر کے عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے۔ اگر بالفرض بیٹھی بھی رہے تو پھر نوے سال یا سو سال یا 120 سال خاوند کی عمر ہونے پر یا اس کے ہم عمر مرجانے پر عورت کی عمر بھی تونوے سال سے یااسی سال سے غالباً کم نہ رہے گی اور اس عمر میں نکاح کی اجازت دینا گویا عذر بد تر از گناہ ہے۔ ہماری شریعت میں نان نفقہ نہ دینے یا نا مردی کی وجہ سے جب نکاح کا فسخ جائز ہے تو مفقود بھی بطریق اولیٰ جائز ہونا چاہیئے اور تعجب یہ ہے کہ حنفیہ ایلاءمیں یعنی چار مہینے تک عورت کے پاس نہ جانے کی قسم میں تو یہ حکم دیتے ہیں کہ چار مہینے گزرنے پر اس عورت کوا یک طلاق بائن پڑجاتی ہے اور یہاں اس بیچاری عورت کی ساری جوانی برباد ہونے پر بھی ان کو رحم نہیں آتا۔ فرماتے ہیں کہ موت اقران کے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے ۔ کیا خوب انصاف ہے اب اگر عورت دوسرا نکاح کر لے اس کے بعد پہلے خاوند کا حال معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے تو پہلے ہی خاوندکی عورت ہوگی اور شعبہ نے کہا دوسرے خاوند سے قاضی اس کو جدا کردے گا وہ عدت پوری کرکے پھر پہلے خاوند کے پاس رہے۔ اگر پہلا خاوند مر جائے تو اس کی بھی عدت بیٹھے اور اس کی وارث بھی ہوگی۔ بعضوں نے کہا پہلا خاوند اگر آئے تو اس کو اختیار ہوگا چاہے اپنی عورت دوسرے خاوند سے چھین لے چاہے جو مہر عورت کو دیا ہو وہ اس سے وصول کرلیوے ۔ میں ( وحید الزماں ) کہتا ہوں اگر مفقود نے بلا عذر اپنا احوال مخفی رکھا تھا اورعورت کے لیے نان نفقہ کا انتظام نہیں کرکے گیا تھا۔ نہ کچھ جائیداد چھوڑ کر گیا تھا تو قیاس یہ ہے کہ وہ اپنی زوجہ کو دوسرے خاوند سے نہیں پھیر سکتا اور اگر عذر معقول ثابت ہو جس کی وجہ سے خبر نہ بھیج سکا اور وہ اپنی زوجہ کے لیے نان نفقہ کی جائیداد چھوڑ گیا تھا یا بندوبست کر گیا تھا تب اس کو اختیار ہونا چاہیئے خواہ عورت پھیر لے، خواہ مہر وہ دوسرے خاوند سے لے لے۔ اور یہ قول گو جدید ہے اور اتفاق علماءکے خلاف ہے مگر مقتضائے انصاف ہے۔ واللہ اعلم ( شرح مولانا وحیدالزماں