You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَقَالَ الأُوَيْسِيُّ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شُعْبَةَ بْنِ الحَجَّاجِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: عَدَا يَهُودِيٌّ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَارِيَةٍ، فَأَخَذَ أَوْضَاحًا كَانَتْ عَلَيْهَا، وَرَضَخَ رَأْسَهَا، فَأَتَى بِهَا أَهْلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ فِي آخِرِ رَمَقٍ وَقَدْ أُصْمِتَتْ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَتَلَكِ؟» فُلاَنٌ لِغَيْرِ الَّذِي قَتَلَهَا، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَنْ لاَ، قَالَ: فَقَالَ لِرَجُلٍ آخَرَ غَيْرِ الَّذِي قَتَلَهَا، فَأَشَارَتْ: أَنْ لاَ، فَقَالَ: «فَفُلاَنٌ» لِقَاتِلِهَا، فَأَشَارَتْ: أَنْ نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ
Narrated Anas bin Malik: During the lifetime of Allah's Apostle a Jew attacked a girl and took some silver ornaments she was wearing and crushed her head. Her relative brought her to the Prophet while she was in her last breaths, and she was unable to speak. Allah's Apostle asked her, Who has hit you? So-and so? , mentioning somebody other than her murderer. She moved her head, indicating denial. The Prophet mentioned another person other than the murderer, and she again moved her head indicating denial. Then he asked, Was it so-and-so? , mentioning the name of her killer. She nodded, agreeing. Then Allah's Apostle; ordered that the head of that Jew be crushed between two stones.
اور اویسی نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے شعبہ بن حجاج نے ، ان سے ہشام بن یزید نے ، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا ، اس کے چاندی کے زیورات جو وہ پہنے ہوئے تھی چھین لیے اور اس کا سر کچل دیا ۔ لڑکی کے گھر والے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس کی زندگی کی بس آخری گھڑی باقی تھی اور وہ بول نہیں سکتی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے ؟ فلاں نے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ سے غیر متعلق آدمی کا نام لیا ۔ اس لیے اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں ۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے شخص کا نام لیا اور وہ بھی اس واقعہ سے غیر متعلق تھا تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے ؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا ۔
اس کے بعد اس یہودی نے بھی اس جرم کا اقرار کر لیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں سے کچل دیا گیا۔ اس حدیث میں بھی کچھ اشارات کو قابل استناد جانا گیا۔ یہی وجہ مطابقت ہے۔ جس طرح اس شقی نے اس معصوم لڑکی کو بے دردی سے مارا تھا اسی طرح اس سے قصاص لیا گیا ۔ اہلحدیث اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور مالکیہ اور شافعیہ سب کا مذہب اسی حدیث کے موافق ہے کہ قاتل نے جس طرح مقتول کو قتل کیا ہے اسی طرح اس سے بھی قصاص لیا جائے گا لیکن حنفیہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ہمیشہ قصاص تلوار سے لینا چاہیئے ۔ آنحضرت نے جو دوبارہ اس لڑکی سے اوروں کا نام لے کر پوچھا اس سے یہ مطلب تھاکہ اس سے اس لڑکی کا با ہوش وحواس ہونا ثابت ہوجائے اور اس کی شہادت پوری معتبر سمجھی جائے ۔ اس حدیث سے گواہی بوقت مرگ کا ایک عمدہ گواہی ہونا نکلتا ہے جسے انگریزوں نے اپنے قانون شہادت میں بھی ایک قابل اعتبار شہادت خیال کیا ہے ( وحیدیتشریح : اس کے بعد اس یہودی نے بھی اس جرم کا اقرار کر لیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں سے کچل دیا گیا۔ اس حدیث میں بھی کچھ اشارات کو قابل استناد جانا گیا۔ یہی وجہ مطابقت ہے۔ جس طرح اس شقی نے اس معصوم لڑکی کو بے دردی سے مارا تھا اسی طرح اس سے قصاص لیا گیا ۔ اہلحدیث اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور مالکیہ اور شافعیہ سب کا مذہب اسی حدیث کے موافق ہے کہ قاتل نے جس طرح مقتول کو قتل کیا ہے اسی طرح اس سے بھی قصاص لیا جائے گا لیکن حنفیہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ہمیشہ قصاص تلوار سے لینا چاہیئے ۔ آنحضرت نے جو دوبارہ اس لڑکی سے اوروں کا نام لے کر پوچھا اس سے یہ مطلب تھاکہ اس سے اس لڑکی کا با ہوش وحواس ہونا ثابت ہوجائے اور اس کی شہادت پوری معتبر سمجھی جائے ۔ اس حدیث سے گواہی بوقت مرگ کا ایک عمدہ گواہی ہونا نکلتا ہے جسے انگریزوں نے اپنے قانون شہادت میں بھی ایک قابل اعتبار شہادت خیال کیا ہے ( وحیدی