You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الأَجْنَادِ، أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ: ادْعُ لِي المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ، وَلاَ نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلاَ نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي الأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ المُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلاَفِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَلَيْهِ رَجُلاَنِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلاَ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ. قَالَ أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ، إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ، وَالأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ - وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ - فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا عِلْمًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ» قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ
Narrated `Abdullah bin `Abbas: `Umar bin Al-Khattab departed for Sham and when he reached Sargh, the commanders of the (Muslim) army, Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah and his companions met him and told him that an epidemic had broken out in Sham. `Umar said, Call for me the early emigrants. So `Umar called them, consulted them and informed them that an epidemic had broken out in Sham. Those people differed in their opinions. Some of them said, We have come out for a purpose and we do not think that it is proper to give it up, while others said (to `Umar), You have along with you. other people and the companions of Allah's Apostle so do not advise that we take them to this epidemic. `Umar said to them, Leave me now. Then he said, Call the Ansar for me. I called them and he consulted them and they followed the way of the emigrants and differed as they did. He then said to them, Leave me now, and added, Call for me the old people of Quraish who emigrated in the year of the Conquest of Mecca. I called them and they gave a unanimous opinion saying, We advise that you should return with the people and do not take them to that (place) of epidemic. So `Umar made an announcement, I will ride back to Medina in the morning, so you should do the same. Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah said (to `Umar), Are you running away from what Allah had ordained? `Umar said, Would that someone else had said such a thing, O Abu 'Ubaida! Yes, we are running from what Allah had ordained to what Allah has ordained. Don't you agree that if you had camels that went down a valley having two places, one green and the other dry, you would graze them on the green one only if Allah had ordained that, and you would graze them on the dry one only if Allah had ordained that? At that time `Abdur-Rahman bin `Auf, who had been absent because of some job, came and said, I have some knowledge about this. I have heard Allah's Apostle saying, 'If you hear about it (an outbreak of plague) in a land, do not go to it; but if plague breaks out in a country where you are staying, do not run away from it.' `Umar thanked Allah and returned to Medina.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے ، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام تشریف لے جارہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراءحضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی ۔ ان لوگوں نے امیر المؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میںپھوٹ پڑی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کوبلا لاؤ ۔ آپ انہیں بلا لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے ، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہوگئیں ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو ، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ ۔ امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ ، میں انہیں بلا کر لایا ۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہو ا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اوروبائی ملک میں لوگوں کو لے جاکر نہ ڈالیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوکر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو ۔ صبح کوایسا ہی ہوا حضرت ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کاش ! یہ بات کسی اورنے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف ۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک ۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سر سبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا ۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تووہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہوگا ۔ بیان کیا کہ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیںتھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک ” علم “ ہے ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی سر زمین میں ( وبا کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جاؤ اورجب ایسی جگہ وبا آجائے جہاںتم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا جواب دیا جو بہت ہی لاجواب تھایعنی بھاگنا بھی بتقدیر الٰہی ہے کیونکہ کوئی کام دنیا میں جب تک تقدیر میں نہ ہو واقع نہیں پڑتا ۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کسی ملک یا قصبہ میں وبا واقع ہو تو وہاں نہ جانا بلکہ وہاں سے لوٹ آنا درست ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ تھی ان کی رائے ہمیشہ حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی۔ اس مسئلہ میں بھی موافق ہوئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مع ساتھیوں کے مدینہ کی طرف لوٹ کرچلے ۔ حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااگر یہ کلمہ کوئی اور کہتا تو اس کو سزا دیتا۔ یہ قصہ طاعون عمواس سے تعلق رکھتا ہے یہ سنہ 18ھ کا واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے ملک کا سرکاری دورہ کرنے نکلے تھے کہ طاعون عمواس کا ذکر آپ کے سامنے کیا گیا اس وقت ملک شام آپنے کئی مواضعات میں تقسیم کر رکھا تھا ہر جگہ فوج کا ایک ایک سردار تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور زید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ یہ سب گورنر تھے۔