You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن إسماعيل البخاري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ بِهِ إِذَا دُعِيَ بِهَا، جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي البَيْتِ، فَقَالَ: «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: «انْظُرْ أَيْنَ هُوَ» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي المَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ: «قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ»
Narrated Sahl bin Sa`d: There was no name dearer to `Ali than his nickname Abu Turab (the father of dust). He used to feel happy whenever he was called by this name. Once Allah's Apostle came to the house of Fatima but did not find `Ali in the house. So he asked Where is your cousin? She replied, There was something (a quarrel) between me and him whereupon he got angry with me and went out without having a midday nap in my house. Allah's Apostle asked a person to look for him. That person came, and said, O Allah's Apostle! He (Ali) is sleeping in the mosque. So Allah's Apostle went there and found him lying. His upper body cover had fallen off to one side of his body, and so he was covered with dust. Allah's Apostle started cleaning the dust from him, saying, Get up, O Abu Turab! Get up, Abu Turab! (See Hadith No. 432, Vol 1)
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد العزیز بن حازم نے بیان کیا، ان سے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ” ابو تراب “ سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے ( اور شوہر ) کہا ں گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہوکر باہر چلے گئے اور میرے یہاں ( گھر میں ) قیلولہ نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہاکہ دیکھو وہ کہاں ہیں ۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گرگئی تھی اور گرد آلود ہوگئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے ، ابو تراب ! ( مٹی والے ) اٹھو، ابو تراب ! اٹھو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں قیلولہ کرتے ہوئے پائے گئے اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ مگر عر ب لوگ باپ کے چچا کو بھی چچا کہہ دیتے ہیں اسی بنا پر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے این ابن عمک کے الفاظ استعمال فرمائے۔