You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
دَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُصَلِّي فِي النَّعْلَيْنِ» قَالَ: نَعَمْ
Sa'd b. Yazid reported: I said to Anas b. Malik: Did the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) pray while putting on the shoes? He said: Yes.
بشر بن مفضل نے ہمیں ابو مسلمہ سعید بن یزید سے خبر دی ، انھوں نے کہا : میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا :ہاں ۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5850 ´صاف چمڑے کی جوتی پہننا` «. . . عَنْ سَعِيدٍ أَبِي مَسْلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا،" أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ . . .» ”. . . سعید بن ابی مسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ: 5850] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5850 کا باب: «بَابُ النِّعَالِ السِّبْتِيَّةِ وَغَيْرِهَا:» باب اور حدیث میں مناسبت: یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت بہت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں ان جوتیوں کا ذکر ہے جس پر سے بال نکال دیئے گئے ہوں، مگر تحت الباب صرف جوتیوں کا ذکر ہے، اس میں بالوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، «سبتيّة» النعال کی صفت ہے، «سب» کے معنی ہیں کاٹنے کے، «نعال سبتيّة» سے ایسے چمڑے کے جوتے مراد ہیں جن کی کھال سے بال صاف کر کے جوتے بنائے گئے ہوں، زمانہ قدیم میں کھال سے بنے ہوئے دونوں قسم کے جوتوں کا رواج تھا، کھال سے بال صاف کر کے جوتے بنائے جاتے۔ مالدار حضرات ایسے ہی جوتے استعمال کرتے اور بال صاف کیے بغیر بھی بنائے جاتے۔ «سِبْتِيَّة» (سین کے کسرہ، باء کے سکون، تاء کے کسرہ اور یاء مفتوحہ مشددہ کے ساتھ ہے) شیخ محمد داؤد راز رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”اس روایت کی تطبیق ترجمہ باب سے مشکل ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس سے استدلال کیا کیوں کہ جوتا عام طور پر دونوں طرح کے جوتے کو شامل ہے، یعنی اس چمڑے کے جوتے کو جس پر بال ہوں اور اس کو بھی جس کے بال نکال دیئے گئے ہوں۔“ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: «و عندي أن المصنف إنها ترجم بالنعال السبتية لما يتوهم من بعض الروايات من كراهيتها و لما قال عبيد بن جريج كما فى رواية الباب من قوله: ”لم أر أحدا يصنعها“ فأشار المصنف بالترجمة إلى مشروعيتها.» (2) ”یعنی بستی جوتیوں کو بعض لوگوں نے مکروہ کہا ہے، اور بعض روایات سے بھی اس کی کراہیت کا وہم ہوتا ہے۔ روایت باب کے اندر عبید بن جریج نے بھی کہا: میں نے کسی کو یہ جوتے بناتے ہوئے نہیں دیکھا، اس قول سے بھی کراہیت کا وہم کسی کو ہو سکتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترجمۃ الباب سے اس کی بلا کراہیت مشروعیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «سبتيّة» کے جائز ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور تحت الباب جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیث ذکر فرمائی ہے اس میں ایک عام اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتیاں پہن کر نماز پڑھی، امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنے کا اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح ہر جوتی میں نماز ادا کی جا سکتی ہے تو بعین اسی طرح سے «سبتيّة» کی جوتی بھی جائز ہے، کیوں کہ دونوں طرح کے جوتے پہننا جائز ہے، اور جن حضرات نے «سبتيّة» جوتیوں کو مکروہ جانا ہے، ان کا رد بھی قیاس کے ذریعے یہاں مقصود ہے۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 171