You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِىُّ مَالِكُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا، عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ»
It has been narrated on the authority of Abdullah b. 'Umar that the Messenger of Allah said: I have been commanded to fight against people till they testify that there is no god but Allah, that Muhammad is the messenger of Allah, and they establish prayer, and pay Zakat and if they do it, their blood and property are guaranteed protection on my behalf except when justified by law, and their affairs rest with Allah.
ابو غسان مسمعی‘مالک بن عبد الواحد‘عبد الملک بن الصباح‘شعبہ ‘واقد بن محمدزید بن عبد اللہ‘ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ)کی گواہی نہ دینے لگ جائیں اور نماز قائم نہ کر لیں اور زکوٰۃ ادر نہ کرنے شروع کر لیں اگر وہ ایسا کر یں گے تو انہوں نے مجھ سےاپنا جان وما ل بچا لیا مگر حق پر ان کا جان اور مال تعرض نہیں کیا جائے گا ان کے دل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 25 ´ایمان کے لیے عمل کی حاجت` «. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ . . .» ”. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ}:: 25] تشریح: علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابواب ایمان میں لانے سے فرقہ ضالہ مرجیہ کی تردید مقصود ہے جن کا گمان ہے کہ ایمان کے لیے عمل کی حاجت نہیں۔ آیت اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے توبہ کرنے اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کا راستہ چھوڑ دو یعنی جنگ نہ کرو۔ اور حدیث میں اس کی تفسیر مزید کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ کلمہ شہات کا بھی ذکر کیا گیا اور بتلایا گیا کہ جو لوگ ان ظاہری اعمال کو بجا لائیں گے ان کو یقیناً مسلمان ہی تصور کیا جائے گا اور وہ جملہ اسلامی حقوق کے مستحق ہوں گے۔ رہا ان کے دل کا حال سو وہ اللہ کے حوالہ ہے کہ دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا وہی ہے۔ «الا بحق الاسلام» کا مطلب یہ کہ قوانین اسلام کے تحت اگر وہ کسی سزا یا حد کے مستحق ہوں گے تو اس وقت ان کا ظاہری اسلام اس بارے میں رکاوٹ نہ بن سکے گا اور شرعی سزا بالضرور ان پر لاگو ہو گی۔ جیسے محصن زانی کے لیے رجم ہے۔ ناحق خون ریزی کرنے والے کے لیے قصاص ہے۔ یا جیسے وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زکوٰۃ سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صاف صاف فرما دیا کہ «لاقاتلن من فرق بين الصلوة والزكوٰة» جو لوگ نماز کی فرضیت کے قائل ہیں مگر زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کر رہے ہیں ان سے میں ضرور مقابلہ کروں گا۔ «الابحق الاسلام» میں ایسے جملہ امور داخل ہیں۔ آیت شریفہ مذکورہ سورۃ توبہ میں ہے جو پوری یہ ہے «فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ» [9-التوبة:5] یعنی حرمت کے مہینے گزرنے کے بعد (مدافعانہ طور پر) مشرکین سے جنگ کرو اور جہاں بھی تمہارا داؤ لگے ان کو مارو، پکڑو، قید کرو اور ان کے پکڑنے یا زیر کرنے کے لیے ہر گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ شرارت سے توبہ کریں اور (اسلام قبول کر کے) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ کیونکہ اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔ آیت شریفہ کا تعلق ان مشرکین عرب کے ساتھ ہے جنہوں نے مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا اور ہر وقت وہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں رہے اور ”خود جیو اور دوسروں کو جینے دو“ کا فطری اصول قطعاً بھلا دیا۔ آخر مسلمانوں کو مجبوراً مدافعت کے لیے قدم اٹھانا پڑا۔ آیت کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے اس پر بھی ان کو آزادی دی گئی کہ اگر وہ جارحانہ اقدام سے باز آ جائیں اور جنگ بند کر کے جزیہ ادا کریں تو ان کو امن دیا جائے گا اور اگر اسلام قبول کر لیں تو پھر وہ اسلامی برادری کے فرد بن جائیں گے اور جملہ اسلامی حقوق ان کو حاصل ہوں گے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويؤخذ من هذا الحديث قبول الاعمال الظاهرة والحكم بمايقتضيه الظاهر والاكتفاءفي قبول الايمان بالاعتقاد الجازم۔» یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال ظاہری کو قبول کیا جائے گا اور ظاہری حال ہی پر حکم لگایا جائے گا اور پختہ اعتقاد کو قبولیت ایمان کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويوخذ منه ترك تكفير اهل البدع المقرين بالتوحيد الملتزمين للشرائع وقبول توبة الكافر من كفره من غير تفصيل بين كفر ظاهر اوباطن» یعنی اس حدیث سے یہ بھی لیا جائے گا کہ جو اہل بدعت توحید کے اقراری اور شرائع کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور یہ کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی تفصیل میں نہ جائیں گے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ ہاں جو لوگ محبت بدعت میں گرفتار ہوکر علانیہ توہین و انکار سنت کریں گے وہ ضرور آیت کریمہ «فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ» [3-آل عمران:32] کے مصداق ہوں گے۔ حضرت امام المحدثین مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے اور یہ بتلاتے ہوئے کہ اعمال بھی ایمان ہی میں داخل ہیں، تفصیل مزید کے طور پر آگے بتلانا چاہتے ہیں کہ بہت سی آیات قرآنی و احادیث نبوی میں لفظ عمل استعمال ہوا ہے اور وہاں اس سے ایمان مراد ہے۔ پس مرجیہ کا یہ قول کہ ایمان قول بلا عمل کا نام ہے، باطل ہے۔ حضرت علامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفي الحديث رد على المرجئة فى قولهم ان الايمان غيرمفتقر الي الاعمال وفيه تنبيه على ان الاعمال من الايمان والحديث موافق لقوله تعالىٰ فان تابوا واقامواالصلوة فخلوا سبيلهم متفق عليه اخرجه البخاري فى الايمان والصلوة ومسلم فى الايمان الا ان مسلمالم يذكر الابحق الاسلام لكنه مراد والحديث اخرجه ايضا الشيخان من حديث ابي هريرة والبخاري من حديث انس ومسلم من حديث جابر» [مرعاة جلد: اول ص: 36] مراد وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الایمان اور کتاب الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے اور امام مسلم نے صرف ایمان میں اور وہاں لفظ «الابحق الاسلام» ذکر نہیں ہوا لیکن مراد وہی ہے نیز اس حدیث کو شیخان نے حدیث ابوہریرۃ سے اور بخاری نے حدیث انس سے اور مسلم نے حدیث جابر سے بھی روایت کیا ہے۔ صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 25