You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ، كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ»
Ibn Umar reported that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: He who misses the afternoon prayer, it is as though he has been deprived of his family and his property.
نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص کی نماز عصر رہ گئی تو گیا اس کے اہل وعیال اور اس کا مال تباہ وبرباد ہو گئے ۔‘‘
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 107 ´جس کی نماز عصر رہ گئی؟` «. . . مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا مال اور گھر والے سب کچھ اس سے چھن گیا اور وہ دیکھتا رہ گیا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 107] تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 552، و مسلم 626، من حديث مالك به] تفقہ: ① تمام نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن بعض نمازوں مثلاً نماز عصر کے سلسلے میں سخت تاکید آئی ہے۔ ② تارک نماز ایسا بدنصیب، مفلس و کنگلا ہے جس کا مال و متاع اور گھر بار سب تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور اسے شعور تک نہیں۔ ③ تمام نمازیں اول وقت میں اور باجماعت پڑھنی چاہیئں اور عصر کی نماز اول وقت میں اور باجماعت پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ ④ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر داخل ہو جاتا ہے۔ ديكهئے: [سنن الترمذي 149، وقال: حديث حسن و صححه ابن خزيمه: 353 و ابن حبان 279 و ابن الجارود: 149، والحاكم 193/1 وغيرهم] لہٰذا فوت ہونے سے بچنے کے لئے اول وقت پر ہی عصر پڑھ لینی چاہئے۔ نماز اول وقت پڑھنا بہترین عمل ہے۔ ⑤ سیدنا ابن حدیدہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز عصر کے لئے جا رہا تھا، زوراء کے مقام پر مجھے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا: نماز کے لئے۔ انہوں نے فرمایا: تم نے بہت دیر کر دی، جلدی کرو۔ ابن حدیدہ نے کہا: میں نے جا کر مسجد میں نماز پڑھی پھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری لونڈی جو پانی لینے گئی ہوئی تھی، اس نے تاخیر کر دی، میں اس کی طرف رومہ کنویں پر گیا، پھر جب واپس آیا تو سورج اچھا یعنی بلند تھا۔ [الاستذكار 66/1 ح 20 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز اول وقت پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔ مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے: [ماهنامه الحديث: 25 ص 65 اور هدية المسلمين: 7] ⑦ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر اتنی غشی آئی کہ آپ ہوش میں نہ رہے پھر آپ نے نماز کی قضا ادا نہ کی۔ [الموطا 13/1 ح 23 وسنده صحيح] امام مالک نے فرمایا: ہمارا خیال ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا اس وجہ سے آپ نے قضا ادا نہیں کی اور اگر وقت کے دوران میں افاقہ ہو جاتا تو آپ نماز پڑھتے۔ [الموطأ ايضاً ترقيم الاستذكار: 23] راجح یہی ہے کہ ایس حالت میں نماز کی قضا ادا کر لینی چاہئے۔ موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 195