You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا، وَفَزِعْنَا، فَقُمْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ [ص:60] لِبَنِي النَّجَّارِ، فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا؟ فَلَمْ أَجِدْ، فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ - وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ - فَاحْتَفَزْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَبُو هُرَيْرَةَ» فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قُلْتُ: كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي، فَقَالَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ» وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ: «اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ»، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً، وَرَكِبَنِي عُمَرُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟» قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي، قَالَ: ارْجِعْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ، وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَخَلِّهِمْ»
It is reported on the authority of Abu Huraira: We were sitting around the Messenger of Allah (may peace and blessings be upon him). Abu Bakr and Umar were also there among the audience. In the meanwhile the Messenger of Allah got up and left us, He delayed in coming back to us, which caused anxiety that he might be attacked by some enemy when we were not with him; so being alarmed we got up. I was the first to be alarmed. I, therefore, went out to look for the Messenger of Allah (may peace and blessings be upon him) and came to a garden belonging to the Banu an-Najjar, a section of the Ansar went round it looking for a gate but failed to find one. Seeing a rabi' (i. e. streamlet) flowing into the garden from a well outside, drew myself together, like a fox, and slinked into (the place) where God's Messenger was. He (the Holy Prophet) said: Is it Abu Huraira? I (Abu Huraira) replied: Yes, Messenger of Allah. He (the Holy Prophet) said: What is the matter with you? replied: You were amongst us but got up and went away and delayed for a time, so fearing that you might be attacked by some enemy when we were not with you, we became alarmed. I was the first to be alarmed. So when I came to this garden, I drew myself together as a fox does, and these people are following me. He addressed me as Abu Huraira and gave me his sandals and said: Take away these sandals of mine, and when you meet anyone outside this garden who testifies that there is no god but Allah, being assured of it in his heart, gladden him by announcing that he shall go to Paradise. Now the first one I met was Umar. He asked: What are these sandals, Abu Huraira? I replied: These are the sandals of the Messenger of Allah with which he has sent me to gladden anyone I meet who testifies that there is no god but Allah, being assured of it in his heart, with the announcement that he would go to Paradise. Thereupon 'Umar struck me on the breast and I fell on my back. He then said: Go back, Abu Huraira, So I returned to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ), and was about to break into tears. 'Umar followed me closely and there he was behind me. The Messenger of Allah (may peace and blessings be on him) said: What is the matter with you, Abu Huraira? I said: I happened to meet 'Umar and conveyed to him the message with which you sent me. He struck me on my breast which made me fall down upon my back and ordered me to go back. Upon this the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: What prompted you to do this, 'Umar? He said: Messenger of Allah, my mother and father be sacrificed to thee, did you send Abu Huraira with your sandals to gladden anyone he met and who testified that there is no god but Allah, and being assured of it in his heart, with the tidings that he would go to Paradise? He said: Yes. Umar said: Please do it not, for I am afraid that people will trust in it alone; let them go on doing (good) deeds. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Well, let them.
حضرت ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے چاروں طرف ایک جماعت ( کی صورت) میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہمارے ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر بھی موجود تھے ۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے ( اور کسی طرف چلے گئے ) ، پھر آپ نے ہماری طرف ( واپسی میں ) بہت تاخیر کر دی تو ہم ڈر گئے کہ کہیں ہمارے بغیر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچائی جائے ۔ اس پر ہم بہت گھبرائے اور ( آپ کی تلاش میں نکل ) کھڑے ہوئے ۔ سب سے پہلے میں ہی گھبرایا اور رسول اللہ ﷺ کو ڈھونڈ نے نکلا یہاں تک کہ میں انصار کے خاندان بنو نجاز کے چار دیواری ( فصیل ) سے گھرے ہوئے ایک باغ تک پہنچا اور میں نے اس کے ارد گرد چکر لگایا کہ کہیں پر دروازہ مل جائے لیکن مجھے نہ ملا ۔ اچانک پانی کی ایک گزر گاہ دکھائی دی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی ( ربیع آب پاشی کی چھوٹی سی نہر کو کہتے ہیں ) میں لومڑی کی طرح سمٹ کر داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا ۔ آپ نے پوچھا : ’’ ابو ہریرہ ہو ؟ ‘‘ میں نے عرض کی : جی ہاں، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا: ’’تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کی : آپ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے ، پھر وہاں سے اٹھ گئے ، پھر آپ نے ہماری طرف (واپس) آنے میں دیر کر دی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ آپ ہم سے کاٹ نہ دیے جائیں ۔ اس پر ہم گھبرا گئے ، سب سے پہلے میں گھبرا کر نکلا تو اس باغ تک پہنچا اور اس طرح سمٹ کر (اندر گھس) آیا ہوں جس طرح لومڑی سمٹ کر گھستی ہے اور یہ دوسرے لوگ میرے پیچھے ( آرہے ) ہیں ۔ تب آپﷺ نے فرمایا:’’اے ابو ہریرہرضی اللہ عنہ ! ‘‘ او رمجھے اپنے نعلین (جوتے) عطا کیے اور ارشاد فرمایا: ’’میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس چار دیواری کی دوسری طرف تمہیں جو بھی ایسا آدمی ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو ، اسے جنت کی خوش خبری سنا دو ۔ ‘‘ سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، انہوں نے نے کہا : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ! ( تمہاری ہاتھ میں ) یہ جوتے کیسے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کے نعلین (مبارک) ہیں ۔ آپ نے مجھے یہ نعلین (جوتے) دے کر بھیجا ہے کہ جس کسی کو ملوں جو دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو ، اسے جنت کی بشارت دے دوں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نےمیرے سینے پر اپنے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا اور انہوں نے کہا : اے ابو ہریرہ! پیچھے لوٹو ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اس عالم میں واپس آیا کہ مجھے رونا آرہا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے لگ کر چلتے آئے تو اچانک میرے عقب سے نمودار ہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ( مجھ سے) کہا: ’’ اے ابوہریرہ !تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے عرض کی : میں نے عرض :میں عمر سے ملا اور آپ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا ، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب لگائی ہے جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا ، اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عمر! تم نے جو کیا اس کا سبب کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کی : اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! کیا آپ نے ابوہریرہ کو اس لیے نعلین دے کر بھیجا تھا کہ دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہکی شہادت دینے والے جس کسی کو ملے ، اسے جنت کی بشارت دے ؟ آپﷺ نے فرمایا:’’ہاں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : تو ایسا نہ کیجیے ، مجھے ڈر ہے کہ لوگ بس اسی (شہادت) پر بھروسا کر بیٹھیں گے ، انہیں چھوڑ دیں کہ وہ عمل کرتے رہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اچھا تو ان کو چھوڑ دو ۔ ‘‘
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 39 ´اہل ایمان کے لیے خوشخبری` «. . . وَأَعْطَانِي نَعْلَيْه قَالَ اذْهَبْ بنعلي هَاتين فَمن لقِيت من وَرَاء هَذَا الْحَائِط يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں جوتیاں مجھے عطا فرما کر فرمایا تم میری یہ دونوں جوتیاں لے جاؤ اور جو شخص اس باغ کے باہر تم سے ملے اور وہ اس بات کی سچے دل اور سچی زبان یعنی یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سنا دو . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 39] تخریج: [صحيح مسلم 147] فقہ الحدیث: ➊ اصل نجات دل سے یقین والے ایمان پر ہے۔ ایمان کے بعد ہی اعمال صالحہ اللہ کے ہاں مقبول ہو سکتے ہیں۔ ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ کرام بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کی بظاہر گمشدگی پر وہ پریشان ہوئے اور آپ کی تلاش میں چاروں طرف والہانہ انداز میں نکل کھڑے ہوئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت جلیل القدر صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی احادیث کا سماع و روایت آپ کی زندگی کا مقصد تھا۔ ➍ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تائید میں آسمان سے قرآن نازل ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آپ کے مشورے کو اہمیت دی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جنتی ہیں۔ «والحمد الله» ➎ روایت کے ساتھ اگر قرائن بھی ہوں تو دلی اطمینان اور یقین کامل حاصل ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نعلین (جوتے) دے کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا۔ ➏ اگر شاگر سبق یاد نہ کرے یا قابل تادیب حرکت کرے تو اسے عند الضرورت مارا پیٹا جا سکتا ہے تاکہ اس کی اصلاح ہو جائے۔ ➐ صرف لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کہہ لینے پر ہی اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کلمہ طیبہ پر جسم و جان کے ساتھ پورا پورا عمل کرنا چاہئے۔ اس روایت میں مرجیہ کا رد ہے جو اعمال کو ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں۔ ➑ اگر کسی مکان کے مالک کی ناراضی کا خوف نہ ہو اور کوئی شرعی مانع نہ ہو تو اس مکان میں عند الضرورت اضطراری حالت میں بغیر اجازت کے داخل ہونا جائز ہے۔ ➒ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انتہائی طاقتور اور دلیر تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے تھے علی الاعلان اس کا اظہار کرتے تھے۔ ➓ عوام الناس کے فتنہ میں مبتلا ہونے کے ڈر کی وجہ سے بعض آیات و احادیث صحیحہ کا بیان نہ کرنا جائز ہے تاکہ ناسمجھ لوگ ان سے غلط مفہوم مراد نہ لے لیں۔ اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 39