You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، سَمِعَهُ مِنْهُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِقَوْمٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلَى رِجَالٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ بُيُوتَهُمْ»
Abdullah reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying about people who are absent from Jumu'a prayer: I intend that I should command a person to lead people in prayer, and then burn those persons who absent themselves from Jumu'a prayer in their houses.
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان لوگوں سے جو جمعے سے پیچھے رہ جاتے ہیں ، فرمایا :’’میں نے ارادہ کیا کہ کسی آدمی کو حکم دو ں وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ، پھر ان لوگوں کے گھروں کو ان پر (اس سمیت )جلادوں جو جمعے سے پیچھے رہتے ہیں
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1657 ´مال کے حقوق کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم ڈول اور دیگچی عاریۃً دینے کو «ماعون» ۱؎ میں شمار کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1657] 1657. اردو حاشیہ: ➊ سورت الماعون میں ہے۔(فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ) ہلاکت ہے ان نمازیوں کےلئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ دکھلاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیزیں نہیں دیتے۔ یقیناً عام استعمال کی چیزیں لینا دینا معاشرتی زندگی کا لازمہ ہیں۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسے مال کا شرعی حق سمجھتے تھے۔ ➋ کھلے دل سے عام چیزیں عاریتاًدے دینا عمدہ اخلاق کی دلیل ہے۔مگر اس میں یہ نہیں کہ کوئی مانگے تانگے ہی سے گزر بسر شروع کردے۔ یہ سوچ ار عمل از حد پستی کا غماز ہے۔ہاں کبھی کوئی ضرورت پڑے تو عیب نہیں۔ سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1657