You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْعَلُوا مِنْ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا
Ibn 'Umar reported Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Observe some of your prayers in your houses and do not make them graves.
عبیداللہ نے کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی،آپ نے فر ما یا :کچھ نمازیں گھر میں پڑھا کرو اور ان (گھروں ) کو قبریں نہ بناؤ۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 432 ´قبروں میں نماز کے مکروہ ہونے کا بیان` «. . . قَالَ: اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انہیں بالکل مقبرہ نہ بنا لو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 432] فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ قبروں میں نماز کے مکروہ ہونے کا بیان اور حدیث پیش کی کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ مناسبت یہ ہے کہ قبروں پر نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہٰذا اگر گھر میں نماز نفل نہ ادا کی گئی تو وہ بھی قبروں کے مانند ہوں گیں۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ قبر میں مردے نماز نہیں پڑھتے اور ان سے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اسی لیے حکم دیا کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائیں۔ ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «كأن المصنف أشار إلى ما رواه أبوداؤد والترمذي فى ذالك ليس على شرطه وهو حديث أبى سعيد الخدري مرفوعًا الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام، واستنبط من قوله فى الحديث ”ولا تتخذوها قبورًا“ ان القبور ليست بمحل للعبادة فتكون الصلاة فيها مكروهة» [فتح الباري، ج1، ص529] گویا مصنف رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اس حدیث کی طرف جس کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً (لیکن) یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے شرط پر نہیں ہے کہ تمام زمین مسجد ہے سوائے مقبرے اور حمام کے اور اپنے قول کے لیے استنباط فرمایا حدیث سے کہ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ یقیناًً قبریں عبادت کے لیے نہیں ہوا کرتیں اور اس میں (یعنی مقبروں میں) نماز مکروہ ہوتی ہے۔ ◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”حدیث اس بات پر دال ہے کہ گھر اور قبرستان میں (واضح) فرق ہے کیونکہ نماز کا حکم گھر میں دیا گیا ہے اور اسے قبرستان نہ بننے دینے کا حکم ہے۔ سوچیے کہ قبرستان نماز کی جگہ نہیں ہے۔ پس لہٰذا اسی وجہ سے اس کے تحت اس حدیث کو داخل فرمایا ہے۔“ [المتواري، ص86] ◈ علامہ صدیق بن حسن القنوجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «وقد حمل البخاري هذا الحديث على منع الصلاة فى المقابر ولهذا ترجم به، وتعقب بأنه ليس فيه تعرض لجواز الصلاة فى المقابر ولا منعها، بل المراد منه الحث على الصلاة فى البيت، فأن الموتي لا يصلون فى بيوتهم، وكأنه قال: لا تكونوا كالموتي فى القبور حيث انقطعت عنهم الأعمال . . .» [عون الباري، ج1، ص453] یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا حدیث سے کہ مقبروں پر نماز درست نہیں ہے اور اسی پر باب بھی قائم کیا، تعقب کیا ہے کہ اس حدیث میں کوئی تعرض نہیں ہے۔ مقبروں پر نماز ادا کرنے کا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ نمازِ نفل گھر میں ادا کرنی چاہیے۔ کیونکہ مردے اپنے گھروں میں (یعنی قبروں میں) نماز ادا نہیں کرتے۔ گویا کہ یوں کہا: مردوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو قبروں میں ہیں جبکہ ان کے اعمال ان سے منقطع ہو گئے۔۔۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جو آپ کی شرائط پر نہیں (تمام زمین مسجد ہے سوائے مقبرے اور حمام کے)۔ ◈ صدیق حسن خان صاحب رحمہ اللہ کی وضاحت سے واضح ہوا کہ حدیث میں ممانعت کے کوئی ایسے واضح الفاظ موجود نہیں ہیں۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ ترمذی کی حدیث کی طرف ہے جہاں پر حکم واضح الفاظوں میں موجود ہے کہ مقبروں پر نماز نہ ادا کی جائے، بس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ فائدہ: چاروں مذاہب کے نزدیک قبروں پر مساجد بنانا حرام ہے۔ کیونکہ حدیث میں واضح طور پر سختی سے اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ہم یہاں چاروں مذاہب سے قبروں کو مساجد بنانے کی نفی ثابت کریں گے۔ ان شاء اللہ ➊ شافعی مذہب: شافعی مذہب کے فقیہ ابن حجر الھیثمی نے [الزواجر عن اقتراف الكبائر، ج1، ص120] میں قبروں پر نماز پڑھنا، اسے مسجد بنانے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ اور مزید فقیہ ابن حجر الھیتمی فرماتے ہیں ”کسی آدمی کا قبر پر تبرک حاصل کرنا اور اسے مسجد بنانا اسباب شرک سے ہے۔ قبروں پر قبے لگانا اور ایسی قبریں تو مسجد ضرار سے بھی زیادہ مضر ہیں۔ کیونکہ اس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر ہے۔“ [روح المعاني، ج5ص31] ➋ حنفی مذہب: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص فرماتے ہیں: «لا نري أن يزاد على ما خرج من القبر ونكره أن يجصص أو يطبن أو يجعل عنده مسجدًا» [كتاب الاثار، ص45] ”یعنی احناف کے نزدیک بھی قبر کو پختہ بنانا یا اسے مسجد بنانا کراہیت سے موقوف ہے۔“ ➌ مالکی مذہب: امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قال علماؤنا: وهذا يحرم على المسلمين أن يتخذوا قبور الانبياء والعلماء مساجد» [تفسير القرطبي، ج10، ص38] ”ہمارے علماؤں نے فرمایا کہ مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں کو مساجد بنائیں۔“ ➍ حنبلی مذہب: ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”قبروں پر چراغاں کرنا حرام ہے، اور اسے مسجد بنانا بھی اور اس مسئلے پر ہم نے معروف علماء میں کسی کو خلاف نہیں پایا۔“ [الاختيارات العلمية، ص52] عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 159