You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
و حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي خُرْصَهَا وَتُلْقِي سِخَابَهَا
Ibn 'Abbas reported that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) went out on the day of Adha or Fitr and observed two rak'ahs, and did not observe prayer (at that place) before and after that. He then came to the women along with Bilal and commanded them to give alms and the women began to give their rings and necklaces. This hadith has been narrated on the authority of Shu'ba with the same chain of transmitters.
معاذ عنبری نے کہا:ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی،انھوں نے عدی سے روایت کی،انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن باہر نکلے اوردو رکعتیں پڑھائیں،اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی۔پھر عورتوں کے پاس آئے جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا تو کوئی عورت اپنی بالیاں(بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں )ڈالتی تھیں اور کوئی اپنا(لونگ وغیرہ کا خوشبودار )ہار ڈالتی تھی۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 975 ´بچوں کا عیدگاہ جانا` «. . . قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .» ”. . . انہوں نے فرمایا کہ میں نے عیدالفطر یا عید الاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر عورتوں کی طرف آئے اور انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کے لیے حکم فرمایا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ: 975] فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب میں بچوں کا عیدگاہ جانے پر اشارہ کیا گیا ہے اور حدیث جو پیش کی گئی ہے اس میں عورتوں کو نصیحت کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی حدیث میں بچوں کے عیدگاہ جانے کے کوئی الفاظ نہیں ہیں لیکن اگر تدبر کیا جائے تو باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت جوان نہیں ہوئے تھے وہ نابالغ تھے اور وہ بھی عیدگاہ میں موجود تھے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وصیت فرمائی، اس حدیث کو ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے اور باب کے ساتھ مناسبت بھی ہے کہ لازمی طور پر عورتیں جن کے چھوٹے بچے ہوں گے وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائی ہوں گی۔ کیوں کہ حدیث میں واضح ہے کہ عید کی نماز میں اگر ایک عورت کے پاس چادر نہیں ہے تو وہ اپنی بہن کے ساتھ چادر میں پردہ کر کے عیدگاہ آئے اور نماز و دعا میں شریک ہو حتی کہ حائضہ عورت بھی مصلی کی جگہ سے دور رہے اور وہ بھی دعا میں شرکت کے لیے عیدگاہ پہنچے جب ایسے حالات میں عورتوں کو عیدگاہ پر آنے کی تلقین کی گئی ہے تو ان کے ساتھ ان کے بچے بھی آ سکتے ہیں، یہیں سے ترجمۃ الباب میں مناسبت ہے۔ ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لكن جري المصنف على عادته فى الاشارة إلى ما ورد فى بعض طرق . . .» [فتح الباري، ج2، ص590] لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آئندہ باب میں مذکور ہیں کہ «ولو لا مكاني من الصغر ما شهدته» ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”اگر باوجود کم عمری کے میری قدر و منزلت آپ کے نزدیک نہ ہوتی تو میں نہیں جا سکتا تھا (عیدگاہ میں)۔“ اس واضح الفاظ کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما چھوٹی عمر میں عیدگاہ گئے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ (قلت) اگر غور کیا جائے خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جمعہ کی نماز کے لیے آتیں اور ان کے ساتھ بچے بھی ہوتے جن کے رونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قرأت میں تخفیف فرمایا کرتے تھے۔ جب عیدگاہ میں خواتین کو تاکید کے ساتھ آنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تو لازماً ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ اگر عید میں بچوں کا آنا ممنوع ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح بچوں کے آنے پر پاپندی لگاتے۔ لہٰذا جب انکار ثابت نہیں تو بچوں کے آنے کا مسئلہ مسجد و عیدگاہ میں اپنی جگہ مسلّم رہا۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 220