You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
و حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ أَبُو يَحْيَى عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ لَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ أَقْبَلَ صُهَيْبٌ مِنْ مَنْزِلِهِ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عُمَرَ فَقَامَ بِحِيَالِهِ يَبْكِي فَقَالَ عُمَرُ عَلَامَ تَبْكِي أَعَلَيَّ تَبْكِي قَالَ إِي وَاللَّهِ لَعَلَيْكَ أَبْكِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ يُبْكَى عَلَيْهِ يُعَذَّبُ قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُوسَى بْنِ طَلْحَةَ فَقَالَ كَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ إِنَّمَا كَانَ أُولَئِكَ الْيَهُودَ
Abu Musa reported that when 'Umar was wounded, there came Suhaib from his house and went to 'Umar and stood by his side, and began to wail. Upon this 'Umar said: What are you weeping for? Are you weeping for me? He said: By Allah, it is for you that I weep, O Commander of the believers. He said: By Allah, you already know that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had said: He who is lamented upon is punished. I made a mention of it to Musa b. Talha, and he said that 'A'isha told that it concerned the Jews (only).
عبد الملک بن عمیر نے ابو بردہ بن ابی موسیٰ سے اور انھوں نے (اپنے والد ) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت کی، انھوں نے کہا: جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہو ئے تو صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر سے آئے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س اندر داخل ہو ئے اور ان کے سامنے کھڑے ہو کر رونے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا مجھ پر رو رہے ہو ؟ کہا: اللہ کی قسم !ہاں ،امیر المومنین!آپ ہی پر رو رہا ہوں ۔تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم !تمھیں خوب علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا تھا جس پر آہ و بکا کی جا ئے اسے عذاب دیا جا تا ہے ۔(عبد الملک بن عمیر نے) کہا: میں نے یہ حدیث موسیٰ بن طلحہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے کہا :حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہا کرتی تھیں (یہ) یہودیوں کا معاملہ تھا ۔(دیکھیے حدیث نمبر2153)۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1594 ´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، جب لوگ کہتے ہیں: «واعضداه واكاسياه. واناصراه واجبلاه» ”ہائے میرے بازو، ہائے میرے کپڑے پہنانے والے، ہائے میری مدد کرنے والے، ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور“ اور اس طرح کے دوسرے کلمات، تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے: کیا تو ایسا ہی تھا؟ کیا تو ایسا ہی تھا؟“ اسید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: «ولا تزر وازرة وزر أخرى» ”کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا“ تو انہوں (موسیٰ) نے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1594] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس حدیث سے اس عذاب کی وضاحت ہوگئی ہے۔ جو رونے والوں کی وجہ سے مرنے والوں کو ہوتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حدیث میں رونے سے مراد محض آنسو بہانا نہیں بلکہ زبان سے نا مناسب الفاظ نکالنا میت کے عذاب کا باعث بنتا ہے۔ (2) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد کے اشکال کے جواب میں سند کی صحت کی طرف توجہ دلائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث کبھی قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی۔ البتہ بعض اوقات ظاہری طور پر اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر آیت اور حدیث میں اسی طرح موافقت پیدا کی جاتی ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی دو آیات اگر باہم متعارض محسوس ہوں تو علمائے کرام انکے اس انداز سے وضاحت فرما دیتے ہیں۔ کہ دونوں میں اختلاف نہیں رہتا۔ (3) قرآن مجید کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس بات پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے۔ کہ میرے آباواجداد میں سے فلاں صاحب بزرگ او رنیک آدمی تھے۔ لہٰذا قیامت میں بھی مجھے نجات مل جائے گی۔ اور نہ کسی کو اس کی وجہ سے حقیر سمجھناچاہیے۔ کہ اس کے باپ دادا نیک نہیں تھے۔ بلکہ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اسے ثواب ملے گا۔ اور جو گناہ کرتا ہے اُسے عذاب ہوگا۔ (4) جو شخص کسی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے۔ تو نیکی کرنے والے کے برابر اسے بھی ثواب ملتا ہے۔ یہ کہ ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو نہیں ملا۔ بلکہ یہ خود اس کے اس عمل کا ثواب ہے۔ جو کہ اس نے نیکی کی ترغیب دی تھی۔ اس ترغیب کا ثواب دوسرے کے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے کی وجہ سے سزا میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی آیت اس حققیت کی تردید نہیں کرتی۔ سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1594