You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ سَمِعَهُ يَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ قَالَ و حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ هَذَا الْحَدِيثِ أَيْضًا
Jubair b. Nufair says: I heard it from 'Auf b. Malik that the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said prayer on the dead body, and I remembered his prayer: O Allah! forgive him, have mercy upon him, give him peace and absolve him. Receive him with honour and make his grave spacious; wash him with water, snow and hail. Cleanse him from faults as Thou wouldst cleanse a white garment from impurity. Requite him with an abode more excellent than his abode, with a family better than his family, and with a mate better than his mate. Admit him to the Garden, and protect him from the torment of the grave and the torment of the Fire. ('Auf bin Malik) said: I earnestly desired that I were this dead body.
ابن وہب نے کہا:مجھے معاویہ بن صالح نے حبیب بن عبید سے خبر دی،انھوں نے اس حدیث کو جبیر بن نفیر سے سنا،وہ کہتے تھے:میں نے حضر ت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہتے تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اسے یاد کرلیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے،اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ(قبر) کو وسیع فرما اور اس(کےگناہوں ) کو پانی،برف اور اولوں سے دھو دے،اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر،اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔کہا:یہاں تک ہوا کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ یہ میت میں ہوتا!(معاویہ نے) کہا:مجھے عبدالرحمان بن جبیر نے حدیث بیان کی،انھوں نے اپنے والد سے حدیث سنائی،انھوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حبیب بن عبیدکی) اسی حدیث کے مانند روایت کی۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 457 ´نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے` ”سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں سے اتنا حصہ یاد کر لیا ”اے اللہ! اس کی مغفرت فرما دے، اس پر رحم فرما، اسے عافیت و آرام سے رکھ، اس سے درگزر فرما، اس کی مہمان نوازی اچھی فرما، اس کی قبر کشادہ و فراخ کر دے، اسے پانی، برف اور ژالوں (اولوں) سے دھو دے (بالکل صاف کر دے) اسے گناہوں سے ایسا صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اور اسے دنیاوی گھر سے بہتر اور عمدہ گھر اور اہل و عیال سے بہتر اہل و عیال عطا فرما، اسے جنت میں داخل فرما، اسے قبر کے فتنہ و آزمائش اور عذاب دوزخ سے محفوظ رکھ۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 457] لغوی تشریح: «نُزُلَهُ» ”نون“ اور ”زا“ دونوں پر ضمہ ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ ”زا“ ساکن ہو، یعنی مہمان کے سامنے پیش کی جانے والی خورد و نوش کی کوئی چیز۔ اس جگہ اجر و ثواب مراد ہے۔ «وَسّعْ» توسیع سے ماخوذ ہے اور دعا کے لیے امر کا صیغہ ہے۔ کشادہ و وسیع کر۔ «مَدْخَلَهُ» ”میم“ پر فتحہ ہے البتہ میم پر ضمہ پڑھنا بھی درست ہے۔ جائے داخلہ، لیکں یہاں قبر مراد ہے۔ «اَلْبَرَدِ» ”با“ اور ”را“ دونوں پر فتحہ ہے اولے مراد ہیں۔ «نَقّهِ» ”قاف“ پر تشدید ہے۔ «تنقية» سے ماخوذ دعائیہ کلمہ ہے کہ پاک کر دے، صاف ستھرا کر دے۔ «اَلدَّنَسِ» ”دال“ اور ”نون“ دونوں پر فتحہ، میل کچیل۔ «اُبْدِلْهُ» ابدال (باب افعال) سے ماخوذ ہے۔ بدل دے، اس کے عوض عطاکر۔ «وَقَهِ» اس میں ”واو“ عطف کی ہے۔ ”قاف“ کے نیچے کسرہ ہے جو «وقاية» سے ماخوذ دعائیہ کلمہ ہے اور ”ہ“ ضمیر میت کی طرف راجع ہے، یعنی بچا اسے، حفاظت فرما اس کی، محفوظ رکھ اسے۔ فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دعا بھی بلند آواز سے پڑھی تھی، تبھی تو حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اسے یاد کر لیا تھا۔ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں تو صراحتاً منقول ہے کہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: «شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه واله وسلم صَلّٰي عَلٰي رَجُلٟ مَنَ الْاَنْصَارِ فَسَمِعْتُهُ . . .» ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کا جنازہ پڑھایا۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔۔۔“ [سنن ابن ماجه، الجنائز، باب ماجاء فى الدعاء فى الصلاة على الجنازة، حديث: 1500] ➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز جنازہ بآواز بلند پڑھائی تھی، اس لیے مذکورہ حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے جبکہ بعض علماء اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ دعا میں چونکہ افضل یہ ہے کہ آہستہ مانگی جائے۔ اس لیے اکثر فقہاء نے آہستہ پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے اور اکثر احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح بطور تعلیم اونچی آواز سے پڑھا جائے تو اس میں اعتراض کی گنجائش نہیں۔ «والله اعلم» راوی حدیث: [ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ] شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ قبیلہ اشجع سے تعلق کی وجہ سے اشجعی کہلائے۔ غزوہ خیبر میں پہلی مرتبہ شریک جہاد ہوئے۔ فتح مکہ کے روز قبیلہ اشجع کا علم ان کے ہاتھ میں تھا۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ ۷۳ ہجری میں وہیں فوت ہوئے۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 457