You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فَسَأَلَاهُ عَنِ الْحَرُورِيَّةِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهَا قَالَ: لَا أَدْرِي مَنِ الْحَرُورِيَّةُ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ - وَلَمْ يَقُلْ: مِنْهَا - قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَكُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ، فَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ - أَوْ حَنَاجِرَهُمْ - يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ إِلَى نَصْلِهِ إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الْفُوقَةِ، هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ "
Abu Salama and 'Ata' b. Yasar came to Abu Sa'id al-Khudri and asked him about Haruriya, saying: Did you hear the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) making a mention of them? He (Abu Sai'd al-Khudri) said: I don't know who the Haruriya are, but I heard the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: There would arise in this nation (and he did not say out of them ) a people and you would hold insignificant your prayers as compared with their prayers. And they would recite the Qur'an which would not go beyond their throats and would swerve through the religion (as blank) just as a (swift) arrow passes through the prey. The archer looks at his arrow, at its iron head and glances at its end (which he held) in the tip of his fingers to see whether it had any stain of blood.
محمد بن ابراہیم نے ابو سلمہ اورعطاء بن یسار سے روایت کی کہ وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے حروریہ کے بارے میں دریافت کیا:کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سناتھا؟انھوں نے کہا:حروریہ کوتو میں نہیں جانتا،البتہ میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ سنا ہے؛اس امت میں ایک قوم نکلے گی۔آپ نےاس امت میں سےنہیں کہا۔تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں سے ہیچ سمجھو گے،وہ قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق۔۔۔یا ان کے گلے۔۔۔سے نیچے نہیں اترے گا۔وہ اس طرح دین سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کیے ہوئے جانور سے نکل جاتا ہے اور تیر انداز اپنے تیر کی لکڑی کو،اس کے پھل کو،اسکی تانت کو دیکھتا ہے اور اس کے پچھلے حصے(سوفار یا چٹکی) کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتا ہے کے کہا اس کے ساتھ(شکار کے) خون میں کچھ لگا ہے۔(تیر تیزی سے نکل جائے تو اس پر خون وغیرہ زیادہ نہیں لگتا۔اسی طرح تیزی کے ساتھ دین سے نکلنے والے پردین کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔)
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432 ´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں“` «. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .» ”. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5] ”حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: ”میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے“، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔“ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔“ [عمدة القاري للعيني: 181/25] لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 320