You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الْمَلِيحِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِيكَ عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثَنَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ لَهُ صَوْمِي، فَدَخَلَ عَلَيَّ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَجَلَسَ عَلَى الْأَرْضِ، وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَقَالَ لِي: «أَمَا يَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «خَمْسًا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «سَبْعًا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «تِسْعًا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «أَحَدَ عَشَرَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ، شَطْرُ الدَّهْرِ، صِيَامُ يَوْمٍ، وَإِفْطَارُ يَوْمٍ»
Abu Qatada reported that Abu al Malih informed me: I went along with your father to 'Abdullah b. Amr, and he narrated to us that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) was informed about my fasting and he came to me, and I placed a leather cushion filled with fibre of date-palms for him. He sat down upon the ground and there was that cushion between me and him, and he said to me: Does three days' fasting in a month not suffice you? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts). He said: (Would) five (not suffice for you)? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts) He said: (Would) seven (fasts) not suffice you? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts). He (the Holy Prophet) then said: (Would) nine (fasts not suffice you)? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts). He said: (Would) eleven (fasts not suffice you)? I said: Messenger of Allah, (I am capable of observing more fasts than these). Thereupon the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: There is no fasting (better than) the fasting of David which comprises half of the age, fasting a day and not fasting a day.
ابو قلابہ(بن زید بن عامر الجرمی البصری) نے کہا:مجھے ابوملیح نے خبر دی،کہا:میں تمھارے والد کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا تو انھوں نے ہمیں حدیث سنائی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرے روزوں کاذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چمڑے کاایک تکیہ رکھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور تکہہ میرے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں آگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:کیا تمھیں ہر مہینے میں سے تین دن(کے روزے) کافی نہیں؟میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچ۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نو۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے زیادہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گیارہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:داود علیہ السلام کے روزوں سے بڑھ کر کوئی ر وزے نہیں ہیں،آدھا زمانہ ،ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا۔
مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976 ´ہمیشہ روزہ رکھنا` «. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .» ”. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976] فقہ الحدیث منکرین اعتراض کرتے ہیں: امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے: «محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.» ”محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔“ {أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!» مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے، اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے: ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎ جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎ امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔ ------------------ ۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92] ۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!» دفاع صحیح بخاری، حدیث\صفحہ نمبر: 132