You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، جَمِيعًا عَنِ الثَّوْرِيِّ، كِلَاهُمَا عَنْ مَنْصُورٍ، بِمَعْنَى حَدِيثِ جَرِيرٍ، غَيْرَ أَنَّ شُعْبَةَ لَيْسَ فِي حَدِيثِهِ ذِكْرُ: «بِاسْمِ اللهِ» وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ: «بِاسْمِ اللهِ»، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ: قَالَ مَنْصُورٌ: أُرَاهُ قَالَ: «بِاسْمِ اللهِ»
This hadith is narrated through another chain of transmitters and there is no mention of (the words) Bismillah (In the name of Allah) in it.
شعبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، نیز ابن نمیر اور عبدالرزاق نے ثوری سے (اور ثوری اور شعبہ) دونوں نے منصور سے جریر کی حدیث کے ہم معنی روایت کی، لیکن شعبہ کی حدیث میں اللہ کے نام سے کا ذکر نہیں، اور ثوری سے روایت کردہ عبدالرزاق کی روایت میں اللہ کے نام سے (کا جملہ) ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے: منصور نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے نام سے
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141 ´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا` «. . . قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: ”اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔“ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 141] فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ بیوی سے صحبت کرنا ایک جسمانی فعل ہے اور وضو کرنا ایک عبادت اور روحانی فعل ہے جب جسمانی فعل میں بسم اللہ کہنا ضروری ہے تو کیوں کر وضو جو عبادت ہے اس میں بسم اللہ کہنا ضروری نہ ہو۔ ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ليس العموم ظاهرا من الحديث الذى اورده، لكن يستفاد من باب الاوليٰ لانه اذا شرع فى حالة الجماع وهى مما امر فيه بالصمت فغيره الاوليٰ . . . .» [فتح الباري ج1ص 322] ”اور عموم ظاہر یہ ہے حدیث سے جس کو باب میں (امام بخاری رحمہ اللہ) نے وارد کیا ہے لیکن مستفاد ہوتا ہے، بطریق اولیٰ اس واسطے کہ جب (تسمیہ) جماع کی حالت میں مشروع ہے حالانکہ اس حالت میں چپ رہنے کا حکم ہے تو پھر اس کے علاوہ تو (تسمیہ پڑھنا) اولیٰ ہو گا۔ ↰ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جماع کے وقت جب چپ رہنے کا حکم ہے تو اس وقت بھی تسمیہ پڑھنا مسنون ٹھہرا تو کیوں کر دوسرے نیک کاموں میں تسمیہ مشروع نہ ہوگا؟ ◈ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ: «التسمية الوضؤ بالحديث الذى اور ده فى هذا الباب لد لالته على استحباب تسمية الله عند الوقاع الذى هو ابعد الاحوال عن ذكر الله ففي الوضوء بالطريق الاولي» [شرح تراجمه من ابواب البخاري ص 65] ”یعنی وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے والی حدیث کو ترجمۃ الباب میں لایا گیا ہے جو اس بات پر دلالت ہے کہ صحبت کے وقت بھی تسمیہ پڑھنا مستحب ہے جو کہ (یہ فعل) دوسرے احوال سے بعید ہے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے (لیکن جب اس میں تسمیہ ثابت ہو گیا تو) باقی اعمال میں بطریق اولیٰ جائز ہے۔“ ↰ یہی تطبیق علامہ قسطلانی نے بھی دی ہے۔ [ديكهيے ارشاد الساري، ج1، ص 325] (قلت) مزید اگر ترجمۃ الباب میں غور کیا جائے تو مناسبت کچھ اس طرح سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے: ➊ جزء عام یعنی «على كل حال» ➋ جزء خاص یعنی «عندالوقاع» ہے۔ اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلے جزء میں ہر نیک کام کی ابتداء تسمیہ سے ثابت ہوئی اور دوسرے جزء میں الفاظ «اذاتي اهله» سے مراد بیوی کے پاس آنا یعنی «عندالوقاع» ثابت ہوا۔ مزید اگر غور کیا جائے تو آدمی جب اپنی بیوی کے پاس صحبت کی غرض سے جاتا ہے تو فارغ ہونے کے بعد اسے وضو کرنا چاہئیے جب وہ وضو کرے گا تو اس کی ابتدا میں تسمیہ پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ بغیر تسمیہ کے وضو نہیں۔ پس یہاں سے بھی ترجمۃ الباب میں مناسبت ہو گی۔ لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یہی ہے کہ جماع ایک جسمانی فعل ہے جب اس میں تسمیہ ہے تو پھر وضو ایک روحانی اور جسمانی فعل ہے تو اس میں بھی تسمیہ بطریق اولی ہوگا۔ «الله اعلم» عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 120