You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، فَأَخْبَرَتْنِي أَنَّ زَوْجَهَا الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا، فَأَبَى أَنْ يُنْفِقَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نَفَقَةَ لَكِ، فَانْتَقِلِي فَاذْهَبِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَكُونِي عِنْدَهُ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ عِنْدَهُ
Fatima bint Qais reported that her husband al-Makhzulmi divorced her and refused to pay her maintenance allowance. So she came to Allah's Messenger (may peace he upon him) and informed him, whereupon he said: There is no maintenance allowance for you, and you better go to the house of Ibn Umm Maktum and live with him for he is a blind man and you can put off your clothes in his house (i. e. you shall not face much difficulty in observing purdah there).
عمران بن ابی انس نے ابوسلمہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے مخزومی شوہرنے انہیں طلاق دے دی اور ان پر خرچ کرنے سے بھی انکار کر دیا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو اس بات کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے خرچ نہیں ہے۔ (وہاں سے) منتقل ہو کر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں چلی جاؤ اور وہیں رہو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں اپنے (اوڑھنے کے) کپڑے بھی اتار سکو گی
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 369 ´مطلقہ عورت کے لئے نان نفقہ ہے نہ سکونت` «. . . 379- وعن عبد الله بن يزيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن فاطمة بنت قيس أن أبا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب، فأرسل إليها وكيله بشعير فسخطته، فقال: والله، ما لك علينا من شيء، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ”ليس لك عليه من نفقة“ فأمرها أن تعتد فى بيت أم شريك ثم قال: ”تلك امرأة يغشاها أصحابي، اعتدي عند ابن أم مكتوم، فإنه رجل أعمى، تضعين ثيابك، فإذا حللت فآذنيني“، قالت: فلما حللت ذكرت له أن معاوية بن أبى سفيان وأبا جهم بن هشام خطباني فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه، وأما معاوية فصعلوك لا مال له، ولكن انكحي أسامة بن زيد“ قالت: فكرهته، ثم قال: ”انكحي أسامة“ فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت به. . . .» ”. . . سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں (آخری تیسری طلاق) طلاق بتہ دی اور وہ (مدینے سے) غیر حاضر تھے پھر انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے سے کچھ جَو بھیجے تو وہ (کم مقدار ہونے پر) ناراض ہوئیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم پر تمہارے لئے کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے ان پر کوئی نان نفقہ (لازم) نہیں ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا پھر فرمایا: ”اس عورت کے پاس (اس کی سخاوت کی وجہ سے) میرے صحابہ کثرت سے جاتے رہتے ہیں، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں دوپٹا وغیرہ اتار سکتی ہو۔ پھر جب عدت ختم ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔“ (فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: جب میری عدت ختم ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم بن ہشام رضی اللہ عنہ نے میری طرف شادی کا پیغام بھیجا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوجہم تو کندھے سے عصا نہیں اتارتے اور معاویہ فقیر ہیں ان کے پاس کوئی مال نہیں ہے، لیکن تم اسامہ بن زید سے شادی کر لو۔“ (فاطمہ) کہتی ہیں: میں نے اسے ناپسند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسامہ سے شادی کر لو“، پھر میں نے ان سے شادی کر لی تو اللہ نے اس میں خیر رکھی اور میں ان پر قابل رشک حد تک خوش رہی۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 369] تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1480/36، من حديث ما لك به] تفقه: ➊ مبتوتہ (جسے تیسری طلاق دی گئی ہو) کے لئے طلاق دینے والے کے ذمہ نہ کوئی نان نفقہ ہے اور نہ سکونت ہے۔ ➋ خبر واحد صحیح کے ساتھ قرآن و احادیث متواترہ کی تخصيص جائز ہے۔ ➌ سیدنا ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو مختلف اوقات میں تین طلاقیں دی تھیں۔ ➍شرعی عذر ہو تو خیر خواہی کے طور پر کسی مسلمان پرتنقید کی جاسکتی ہے۔ ➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم خیر و بھلائی پر مبنی ہے۔ ➏ طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد میاں بیوی میں مکمل جدائی ہو جاتی ہے۔ ➐ بعض علماء کا سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی طرف وہم و خطا منسوب کر کے اس حدیث کو رد کرنا غلط ہے۔ ➑ عورت کے لئے غیروں سے پردہ کرنا ضروری ہے لیکن نابینا سے پردہ ضروری نہیں ہے۔ اگر نابینا سے بھی پردہ کرلیا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ حدیث ام سلمه رضی اللہ عنہا: «أفعما وان أَنتما؟» کیا تم دونوں اندھی ہو؟ سے ثابت ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 4112، وسنده حسن و أخطا من ضعفه] ● حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں نیہان مجہول نہیں ہے بلکہ ترمذی، ابن حبان، حاکم اور ذہبی [الكاشف 175/3] نے اس کی توثیق کر رکھی ہے۔ والحمد للہ ➒ عورت ضرورت کے وقت غیر مردوں سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے کلام کرسکتی ہے۔ ➓ طلاق یافتہ عورت معاشرے کا حصہ ہے لہٰذا اسے معیوب یا کمتر سمجھنا غلط ہے بلکہ اس کی دلجوئی اور دوسری جگہ شادی کرانے کا بندوبست کرنا چاہیے، یہ بھی واضح رہے کہ بہتر یہی ہے کہ دوسری شادی کا پیغام ایام عدت کے بعد دیا جائے۔ «وغير ذلك من الفوائد» موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 379