You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، قَالُوا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَابَرَةِ، وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَلَا يُبَاعُ إِلَّا بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمِ، إِلَّا الْعَرَايَا
Jabir b. Abdullah (Allah be pleased with them) reported that Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had forbidden Muhaqala. and Muzabana, Mukhibara and the sale of fruits until their good condition becomes clear, and (he commanded) that (commodities) should not be sold but for the dinar and dirham except in case of araya.
سفیان بن عیینہ نے ہمیں ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقالہ، مزابنہ، مخابرہ اور (پکنے کی) صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا اور (حکم دیا کہ) عرایا (کی بیع) کے سوا (پھل یا کھیتی کو) صرف دینار اور درہم کے عوض ہی فروخت کیا جائے
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1290 ´بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1290] اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(1224) 2؎: مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے، ایسا کرنے سے منع کیا گیاہے، کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والا تباہ ہوجاتا ہے، اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے، اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔ 3؎: اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔ اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔ سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1290