You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ»،
Abu Huraira (Allah be pleased with him) reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Delay (in the payment of debt) on the part of a rich man is injustice, and when one of you is retired to a rich man, he should follow him.
اعرج (عبدالرحمٰن بن ہرمز مدنی) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غنی آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو کسی مال دار (سے وصولی) پر لگایا جائے تو اسے لگ جانا چاہئے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 526 ´مالدار آدمی کا قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا` «. . . 354- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”مطل الغني ظلم، وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار آدمی کو قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور اگر کوئی (قرض دار آدمی) تمہیں کسی مالدار کے حوالے کر دے (کہ وہ تمہارا قرض ادا کر ے گا) تو اسے قبول کر لینا چاہیے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 526] تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2287، ومسلم 33/1564، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اگر مقروض قرض خواہ سے کہے کہ آپ کو فلاں شخص یا ادارہ میرا قرض ادا کرے گا تو اس پیش کش کو قبول کر لینا چاہئے بشرطیکہ وہ شخص یا ادارہ قابل اعتماد ہو اور مذکورہ رقم ادا کرنے کی ہامی بھر لے۔ ➋ موسیٰ بن میسرہ رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے پوچھتے ہوئے سنا: میں ایسا آدمی ہوں کہ قرض کے ساتھ خرید کر (آگے) بیچتا ہوں تو سعید رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تک تو اسے اپنے گھر میں نہ لے جائے تو آگے نہ بیچ۔ [الموطأ 2/674 ح1417، وسنده صحيح] ● معلوم ہوا کہ کسی شخص سے ادھار سودا خرید کر آگے دوسرے آدمی پر بیچنا صحیح نہیں ہے اور اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ کمپنیوں وغیرہ سے شیئرز کا کاروبار بھی غلط ہے۔ ➌ مال ودولت ہونے کے باوجود قرض ادا نہ کرنے والا شخص ظالم ہے لہٰذا وہ فاسق ہے اور اس کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہے۔ ➍ شرعی عذر کے بغیر قرض ادا کرنے میں سستی کرنے والے شخص کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اصحابِ اقتدار کی حمایت حاصل ہو۔ اگر کوئی قرضدار سخت مجبور ہو اور اس کے پاس ادائیگی کے لئے کچھ بھی نہ ہو تو پھر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہئے بلکہ اسے مہلت دینے میں ثواب ہے اور اسے صدقہ کردینا بہترین امور میں سے ہے۔ دیکھئے: سورۃ البقرہ: 280 ➎ قرض ادا کرنے میں سستی اور ٹال مٹول کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے۔ دیکھئے: سورۂ آل عمران: 75، جبکہ اہلِ ایمان وعدے کی پاسداری کرتے اور قرض وقت پر ادا کردیتے ہیں۔ دیکھئے: [فتح الباري 4/466 تحت ح2287] ➏ دلوں میں جدائی اور نفرت ڈالنے والے امور کا خاتمہ دینِ اسلام میں محبوب ومطلوب ہے۔ ➐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض واپس) ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کرے گا (یعنی قرض اتارنے کے وسائل مہیا کرے گا) اور جو کوئی ادا نہ کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ کردے گا۔ [صحيح بخاري: 2387] ➑ قرض اور نیت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسلمان قرض لیتا ہے اور اللہ اس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قرض دنیا ہی میں اُتار دیتا ہے۔ [سنن ابن ماجه: 2408، سنن النسائي: 4690، حسن حديث هے۔] اور جو اس کے برعکس نیت رکھتا ہے تو اس کے بارے میں فرمایا: جو کوئی قرض لیتا ہے اور اس کا پختہ ارادہ ہوتا ہے کہ اسے واپس نہیں کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے چور بن کر پیش ہو گا۔ [سنن ابن ماجه: 2410، حسن] موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 354