You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَمْنَعُوا فَضْلَ الْمَاءِ لِتَمْنَعُوا بِهِ الْكَلَأَ»
Aba Mas'ud al-Ansari (Allah be pleased with him) reported that Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) forbade the charging of price of the dog, and earnings of a prostitute and sweets offered to a kahin.
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زائد پانی نہ روکو کہ اس کے ذریعے سے تم گھاس روک دو۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 593 ´کتے کی قیمت حرام ہے` «. . . عن ابى مسعود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن . . .» ”. . . سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے، زانیہ کی خرچی سے اور کاہن نجومی کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 593] تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري، 2237، و مسلم، 1567، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ یہ حدیث ان لوگوں کا زبردست رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کتا بیچنا جائز ہے۔! ➋ اس پر اجماع ہے کہ زانیہ کی خرچی اور کاہن کی مٹھائی حرام ہے۔ [التمهيد 398/8] ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثمن الکلب خبیث ومھر البغی خبیث وکسب الحجام خبیث» ”کتے کی قیمت خبیث ہے اور زانیہ کی خرچی خبیث ہے اور حجام کی کمائی خبیث ہے۔“ [صحيح مسلم: 1568/41 [4012] ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا یحل ثمن الکلب» ”کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔“ [سنن ابي داود: 3484 وسنده حسن] ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔ [سنن ابي داود: 3482 وسنده صحيح] ➍ جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیا گیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔ مثلاً: ① «عن جابر أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن السنور و الكلب إلا كلب صيد» [سنن النسائي 7/191 ح 4300 و قال: ليس هو بصحيح 7/309 ح 672 و قال: ”هذا منكر“] یہ روایت ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کے «عن» کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابوالزبیر مشہور مدلس تھے۔ ديكهئے: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص62، 61 رقم 3/101] ② «عن ابي هريرة نهى عن مهر البغي و عسب الفحل وعن ثمن السنور وعن الكلب إلا كلب صيد» [السنن الكبري للبيهقي 6/6] یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ محمد بن یحییٰ بن مالک الضبی کی توثیق نامعلوم ہے۔ ➋ حماد بن سلمہ اور قیس بن سعد دونوں ثقہ ہیں لیکن حماد کی قیس سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ قال البیہقی: «ورواية حماد عن قيس فيها نظر» [ايضاً 6/6] حماد بن سلمہ عن قیس بن سعد والی یہی روایت صحیح ابن حبان میں موجود ہے لیکن اس میں کتا بیچنے کی اجازت نہیں بلکہ لکھا ہوا ہے کہ «إنّ مهر البغي وثمن الكلب والسنور وكسب الحجام من السحت» [الاحسان 217/7 ح 4920] سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے کتے اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: «زجر النبى صلى الله عليه وسلم عن ذالك» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔“ [صحيح مسلم، 42/1569، 4015] اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔ ③ سنن دار قطنی [72/3، 73 ح 3045، 3046، 3047] میں بعض روایتیں مروی ہیں جن سے بعض کتوں کی فروخت کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ساری روایتیں ضعیف و مردود ہیں اور ان میں سے بعض کے راویوں کو خود امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ آل تقلید کی پیش کردہ بعض مزید روایات کی تحقیق درج ذیل ہے۔ ④ «ابوحنیفة عن الهيثم عن عكرمة عن ابن عباس قال: رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمن کلب الصید» [مسند ابي حنيفه راوية الحصكفي ص 169، اردو مترجم ص 319، جامع المسانيد للخوارزمي 10/2، 11] مسند الحصکفی [متوفيٰ 650 هجری] کا ایک سابق راوی ابومحمد عبد اللہ بن یعقوب الحارثی تھا۔ [اردو مترجم ص24 مسند الحصكفي ص 27] عبدالله بن محمد بن یعقوب الحارثی محدثین کرام کے نزدیک سخت مجروح ہے۔ ابوزرعہ أحمد بن الحسین الرازی نے کہا: ”ضعیف“ [سوالات حمزه بن يوسف السهمي: 318] ابو احمد الحافظ اور حاکم نیشاپوری نے کہا: «الأستاذ ينسج الحديث» ”یہ استاد تھا، حدیث بناتا تھا۔“ [كتاب ال قرأت خلف الامام للبيهقي ص178، ح388] یعنی یہ شخص حدیثیں گھڑنے میں پورا استاد تھا۔ اس پر خطیب بغدادی، خلیلی، ابن جوزی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ نے جرح کی ہے۔ [تاريخ بغداد 126/10 ت 5262، الارشاد للخليلي، 972/3 ت 899، كتاب الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 141/2، ديوان الضعفاء للذهبي 63/2 ت 2297] نیز دیکھئے: [ميزان الاعتدال 496/2، و لسان الميزان 349، 348/3] اس کی توثیق کسی قابل اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے۔ جامع المسانید للخوارزمی کی سندوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ⓵ خوارزمی بذات خود غیر موثق و مجہول التوثیق ہے۔ ⑤ ابومحمد البخاری الحارثی کذاب ہے۔ «كما تقدم» ➌ أحمد بن محمد بن سعید عرف ابن عقدہ جمہور محدثین کے نزدیک مجروح راوی ہے۔ امام دارقطنی نے اس کی تعریف کے باوجود فرمایا کہ یہ خراب آدمی یعنی رافضی تھا۔ [تاريخ بغداد 22/5 ت 2365 و سنده صحيح] اور فرمایا: یہ منکر روایتیں کثرت سے بیان کرتا تھا۔ [ايضاً وسنده صحيح] ابوعمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص جامع براثا میں صحابہ کرام یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وغیرہما پر تنقیدیں لکھوایا کرتا تھا لہٰذا میں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا۔ [سوالات حمزةالسهمي: 166، وسنده صحيح] یہ (ابن عقدہ) چور بھی تھا، اس نے عثمان بن سعید المری کے بیٹے کے گھر سے کتابیں چرالی تھیں۔ [الكامل فى الضعفاء لابن عدي 209/1 وسنده صحيح، محمد بن الحسين بن مكرم البغدادي ثقه وثقه الدارقطني وغيره] معلوم ہوا کہ ابن عقدہ چور، ساقط العدالت اور رافضی تھا۔ ➍ أحمد بن عبدالله بن محمد الکندی اللجلاج نے امام ابوحنیفہ کے لئے منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔ [الكامل لابن عدي 197/1] امام ابوحنیفہ ایسی منکر حدیثوں کے محتاج نہیں ہیں۔ والحمدللہ أحمد بن عبدالله الکندی کی اس کتے والی روایت کو حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے باطل حدیث قرار دیا ہے۔ [الاحكام الوسطي 249/3، لسان الميزان 199/1] ➎ محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کے بارے میں اسماء الرجال کے امام یحیی بن معین نے فرمایا: «ليس بشئ» ”وہ کچھ چیز نہیں ہے۔“ [تاريخ ابن معين: 1770] امام ابن معین نے مزید فرمایا: «جھمی کذاب» ”محمد بن الحسن الشیبانی جہمی کذاب ہے۔“ [كتاب الضعفاء للعقيلي 82/4 وسنده صحيح] دوسری سند میں أحمد بن عبدالله الکندی اور محمد بن الحسن الشیبانی دونوں مجروح ہیں اور الحسن بن الحسین الانطاکی نامعلوم ہے۔ تیسری سند میں ابن عقدہ چور، عبد اللہ بن محمد البخاری کذاب اور أحمد بن عبد اللہ الکندی و محمد بن الحسن دونوں مجروح ہیں۔ چوتھی سند میں حسین بن محمد بن خسرو البلخی، الحسین بن الحسین انطاکی (؟) أحمد بن عبد اللہ اور محمد بن الحسن مجروح ہیں۔ پانچویں سند میں ابن خسرو، حسین بن حسین، أحمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن ہیں۔ چھٹی اور آخری سند میں ابن خسرو معتزلی مجروح ہے۔ دیکھئے: [لسان الميزان 312/2، وسير اعلام النبلاء 592/19] قاضی ابونصر بن اشکاب اور عبداللہ بن طاہر نامعلوم اور محمد بن الحسن الشیبانی مجروح ہے۔ خلاصۃ التحقیق: یہ روایت باطل و مردود ہے اور امام ابوحنیفہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بعض کتوں کی فروخت کے جواز والی سب روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔ کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [الهدايه للمرغيناني 2/101، واللفظ له، 3/79] [القدوري ص74 قبل باب الصرف،] [فتح القدير لابن همام 6/345،] [بدائع الصنائع 5/142،] [كنز الدقائق ص 257،] [البحر الرائق 172/6،] [الدر المختار مع كشف الاستار 50/2،] [رد المختار المعروف بفتاويٰ شامي 238/4، 239،] [حاشية الطحاوي على الدر المختار 127/3،] [كتاب الفقه على المذاهب الاربعه 232/2،] اور [الفقه الاسلامي و ادلته 446/4،] وغیرہ، بلکہ بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتاويٰ عالمگيري 3/115] ! یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ملا مرغینانی نے لکھا ہے کہ «واذا ذبح مالا يؤكل لحمه طهر جلده و لحمه الا الآدمي و الخنزير» ”آدمی اور خنزیر کے علاوہ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا، اسے ذبح کرنے سے اس کا گوشت اور چمڑا پاک ہوتا ہے۔“ [الهدايه 441/2 دوسرا نسخه 69/4] یہ فتویٰ بھی بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 57