You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَعْمَرَتِ امْرَأَةٌ بِالْمَدِينَةِ حَائِطًا لَهَا ابْنًا لَهَا، ثُمَّ تُوُفِّيَ وَتُوُفِّيَتْ بَعْدَهُ، وَتَرَكَتْ وَلَدًا وَلَهُ إِخْوَةٌ بَنُونَ لِلْمُعْمِرَةِ، فَقَالَ وَلَدُ الْمُعْمِرَةِ: رَجَعَ الْحَائِطُ إِلَيْنَا، وَقَالَ: بَنُو الْمُعْمَرِ، بَلْ كَانَ لِأَبِينَا حَيَاتَهُ وَمَوْتَهُ، فَاخْتَصَمُوا إِلَى طَارِقٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، فَدَعَا جَابِرًا، «فَشَهِدَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَى لِصَاحِبِهَا»، فَقَضَى بِذَلِكَ طَارِقٌ، ثُمَّ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، فَأَخْبَرَهُ ذَلِكَ، وَأَخْبَرَهُ بِشَهَادَةِ جَابِرٍ، فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: صَدَقَ جَابِرٌ، فَأَمْضَى ذَلِكَ طَارِقٌ، فَإِنَّ ذَلِكَ الْحَائِطَ لِبَنِي الْمُعْمَرِ حَتَّى الْيَوْمِ
Jabir (Allah be pleased with him) reported that a woman gave her garden as a life grant to her son. He died and later on she also died and left a son behind and brothers also, The sons of the woman making life grant said (to those who had been conferred upon this 'Umra): This garden has returned to us. The sons of the one who had been given life grant said: This belonged to our father, during his lifetime and in case of his death. They took their dispute to Tariq, the freed slave of 'Uthman. He called Jabir and he gave testimony of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) having said: Life grant belongs to one who is conferred upon this (privilege). Tariq gave this decision and then wrote to Abd al-Malik and informed him, Jabir bearing witness to it. Abd al-Malik said: Jabir has told the truth. Then Tariq gave a decree and, as a result thereof, it is to this day that the garden belongs to descendants of one who was conferred upon the life grant.
ابن جریج نے ہمیں خبر دی، مجھے ابوزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: مدینہ میں ایک عورت نے اپنے بیٹے کو اپنا باغ بطور عمریٰ دیا، پھر وہ فوت ہو گیا اور اس کے بعد وہ بھی فوت ہو گئی، اس (لڑکے) نے اولاد چھوڑی اور اس کے بھائی بھی تھے جو بطور عمریٰ دینے والی عورت کے بیٹے تھے، تو بطور عمریٰ دینے والی عورت کی اولاد نے کہا: باغ ہمیں واپس مل گیا۔ اور جسے بطور عمریٰ ہبہ کیا گیا تھا اس کے بیٹوں نے کہا: زندگی اور موت دونوں صورتوں میں وہ ہمارے باپ ہی کا ہے۔ چنانچہ وہ حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام طارق کے پاس (جو عبدالملک بن مروان کی طرف سے مدینے کا گورنر تھا) جھگڑا لے کر گئے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو بلایا تو انہوں نے عمریٰ کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے فرمان) پر گواہی دی کہ وہ اس کے (موجودہ) مالک کا ہے۔ طارق نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا، پھر انہوں نے عبدالملک کی طرف لکھا اور انہیں اس واقعے کی اطلاع دی اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی گواہی کے بارے میں بھی بتایا تو عبدالملک نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، تو طارق نے اس (حکم) کو نافذ کر دیا، چنانچہ وہ باغ آج تک اسی کے بیٹوں کے پاس ہے جسےبطور عمریٰ دیا گیا تھا
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 282 ´عمریٰ کا بیان` «. . . 21- عن أبى سلمة عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه: فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذى أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث . . .» ”. . . سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو عمریٰ (عمر بھر کے لئے کسی چیز کا تحفہ) دیا جائے کہ یہ اس کا اور اس کے وارثوں کا حق ہے تو جسے عمریٰ ملا اسی کا ہو جائے گا اور دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گا کیونکہ اس نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں وارثت کے احکام جاری ہو گئے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 282] تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 756/2 ض 1517، ك 36 ب 37 ح 43، التمهيد 112/7، الاستذكار: 1446، و أخرجه مسلم فواد عبدالباقی ترقیم 1625، دارالسلام 4188، من حديث مالك به] تفقه: ➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمریٰ کو جائز رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عمریٰ دینے والا کہے: ”یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔“ اگر وہ یہ کہے کہ یہ تیرے لئے ہے جتنا عرصہ تو زندہ رہے تو یہ عمریٰ دینے والے کے پاس واپس لوٹ جائے گا۔ امام زہری بھی اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ [صحيح مسلم 1265/23، وترقيم دارالسلام: 4191] ➋ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے زید بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو ایک گھر عمر بھر کے لئے دیا۔ جب زید رضی اللہ عنہ کی بیٹی فوت ہو گئی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ گھر واپس لے لیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ (بہن کے وارث ہونے کی وجہ سے) یہ گھر ان کا ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1519 وسنده صحيح] ➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو اسی بات پر پایا ہے کہ وہ اپنے امول کے بارے میں اور جو انہیں ملتا شرطوں کی پابندی کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح] ➍ امام مالک فرماتے تھے: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ، عمریٰ دینے والے کو لوٹ جاتا ہے بشرطیکہ وہ یہ نہ کہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے وارثوں کے لئے ہے۔ [موطأ امام مالك 756/2 ح 1518 وسنده صحيح] موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 21