You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ، مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً، قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَايَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ، وَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ، فَتُصِيبُونَ مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا»، فَقَالُوا: بَلَى، فَخَرَجُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَصَحُّوا، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَطَرَدُوا الْإِبِلَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُدْرِكُوا، فَجِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ، وَسُمِرَ أَعْيُنُهُمْ، ثُمَّ نُبِذُوا فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا، وقَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ فِي رِوَايَتِهِ: وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ، وَقَالَ: وَسُمِّرَتْ أَعْيُنُهُمْ،
Anas reported: Eight men of the tribe of 'Ukl came to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and swore allegiance to him on Islam, but found the climate of that land uncogenial to their health and thus they became sick, and they made complaint of that to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ), and he said: Why don't you go to (the fold) of our camels along with our shepherd, and make use of their milk and urine. They said: Yes. They set out and drank their (camels') milk and urine and regained their health. They killed the shepherd and drove away the camels. This (news) reached Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and he sent them on their track and they were caught and brought to him (the Holy Prophet). He commanded about them, and (thus) their hands and feet were cut off and their eyes were gouged and then they were thrown in the sun, until they died. This hadith has been narrated on the authority of Ibn al-Sabbah with a slight variation of words.
ابوجعفر محمد بن صباح اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ ابوبکر کے ہیں، کہا: ہمیں ابن علیہ نے حجاج بن ابی عثمان سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو رجاء مولیٰ ابی قلابہ نے ابو قلابہ سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ عُکل (اور عرینہ) کے آٹھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، انہوں نے اس سرزمین کی آب و ہوا کو ناموافق پایا اور ان کے جسم کمزور ہو گئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: تم ہمارے چرواہے کے ساتھ (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر اسی مشترکہ چراگاہ کی طرف جا رہا تھا جہاں بیت المال کے اونٹ بھی چرتے تھے: فتح الباری: 1/338) اونٹوں میں کیوں نہیں چلے جاتے تاکہ ان کا پیشاب اور دودھ پیو؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ وہ نکلے، ان کا پیشاب اور دودھ پیا اور صحت یاب ہو گئے، پھر انہوں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ بھی بھگا لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے (ایک دستہ) روانہ کیا، انہیں پکڑ لیا گیا اور (مدینہ میں) لایا گیا تو آپ نے ان کے بارے میں (قرآن کی سزا پر عمل کرتے ہوئے) حکم دیا، اس پر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے، ان کی آنکھیں گرم سلاخوں سے پھوڑ دی گئیں، پھر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا حتی کہ وہ مر گئے۔ابن صباح نے اپنی روایت میں ( کے بجائے) اور ( کے بجائے) کے الفاظ کہے (معنی وہی ہے۔)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 306 ´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ۲؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 306] 306۔ اردو حاشیہ: ➊ چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انہیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہو گئی۔ ➋ ”اونٹوں کے پیشاب پیو۔“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیر مسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔ ➌ جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے، وہ اس حدیث کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنہیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماًً شفا ہو گی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔ ➍ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انہیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انہیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انہیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: «كتب عليكم القصاص فى القتلي» [البقرة 178: 2] ”تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔“ قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا، مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لاقود الا بالسيف» [سنن ابن ما جه، الديات، حديث: 2668] یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداًً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔ سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 306