You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ غَيْلَانَ وَهُوَ ابْنُ جَامِعٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ [ص:1322] أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ: «وَيْحَكَ، ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللهَ وَتُبْ إِلَيْهِ»، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْحَكَ، ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللهَ وَتُبْ إِلَيْهِ»، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ: «فِيمَ أُطَهِّرُكَ؟» فَقَالَ: مِنَ الزِّنَى، فَسَأَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبِهِ جُنُونٌ؟» فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ، فَقَالَ: «أَشَرِبَ خَمْرًا؟» فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ، قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَزَنَيْتَ؟» فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، فَكَانَ النَّاسُ فِيهِ فِرْقَتَيْنِ، قَائِلٌ يَقُولُ: لَقَدْ هَلَكَ، لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ، وَقَائِلٌ يَقُولُ: مَا تَوْبَةٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِزٍ، أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَةِ، قَالَ: فَلَبِثُوا بِذَلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ»، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ»، قَالَ: ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، طَهِّرْنِي، فَقَالَ: «وَيْحَكِ ارْجِعِي فَاسْتَغْفِرِي اللهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ» فَقَالَتْ: أَرَاكَ تُرِيدُ أَنْ تُرَدِّدَنِي كَمَا رَدَّدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: «وَمَا ذَاكِ؟» قَالَتْ: إِنَّهَا حُبْلَى مِنَ الزِّنَى، فَقَالَ: «آنْتِ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهَا: «حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِ»، قَالَ: فَكَفَلَهَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ، قَالَ: فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَّةُ»، فَقَالَ: «إِذًا لَا نَرْجُمُهَا وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ»، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِلَيَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ: فَرَجَمَهَا
Sulaiman b. Buraida reported on the authority of his father that Ma, iz b. Malik came to Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said to him: Messenger of Allah, purify me, whereupon he said: Woe be upon you, go back, ask forgiveness of Allah and turn to Him in repentance. He (the narrator) said that he went back not far, then came and said: Allah's Messenger, purify me. whereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Woe be upon you, go back and ask forgiveness of Allah and turn to Him in repentance. He (the narrator) said that he went back not far, when he came and said: Allah's Messenger, purify me. Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said as he had said before. When it was the fourth time, Allah's Messenger (may, peace be upon him) said: From what am I to purify you? He said: From adultery, Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) asked if he had been mad. He was informed that he was not mad. He said: Has he drunk wine? A person stood up and smelt his breath but noticed no smell of wine. Thereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Have you committed adultery? He said: Yes. He made pronouncement about him and he was stoned to death. The people had been (divided) into two groups about him (Ma'iz). One of them said: He has been undone for his sins had encompassed him, whereas another said: There is no repentance more excellent than the repentance of Ma'iz, for he came to Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and placing his hand in his (in the Holy Prophet's) hand said: Kill me with stones. (This controversy about Ma'iz) remained for two or three days. Then came Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) to them (his Companions) as they were sitting. He greeted them with salutation and then sat down and said: Ask forgiveness for Ma'iz b. Malik. They said: May Allah forgive Ma'iz b. Malik. Thereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: He (Ma'iz) has made such a repentance that if that were to be divided among a people, it would have been enough for all of them. He (the narrator) said: Then a woman of Ghamid, a branch of Azd, came to him and said: Messenger of of Allah, purify me, whereupon he said: Woe be upon you; go back and beg forgiveness from Allah and turn to Him in repentance. She said: I find that you intend to send me back as you sent back Ma'iz. b. Malik. He (the Holy, Prophet) said: What has happened to you? She said that she had become pregnant as a result of fornication. He (the Holy Prophet) said: Is it you (who has done that)? She said: Yes. He (the Holy Prophet) said to her: (You will not be punished) until you deliver what is there in your womb. One of the Ansar became responsible for her until she was delivered (of the child). He (that Ansari) came to Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said the woman of Ghamid has given birth to a child. He (the Holy Prophet) said: In that case we shall not stone her and so leave her infant with none to suckle him. One of the Ansar got up and said: Allah's Apostle, let the responsibility of his suckling be upon me. She was then stoned to death.
سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ماعز بن مالک (اسلمی) رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ کہا: وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ کہا: وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) اسی طرح فرمایا حتی کہ جب چوتھی بارر (یہی بات) ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟ انہوں نے کہا: زنا سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اسے جنون ہے؟ تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ مجنون نہیں ہے۔ تو آپ نے پوچھا: کیا اس نے شراب پی ہے؟ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کا منہ سونگھا تو اسے اس سے شراب کی بو نہ آئی۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے زنا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں (یہیں آپ نے اس سے اس واقعے کی تصدیق چاہی جو آپ تک پہنچا تھا) پھر آپ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا، چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے حوالے سے لوگوں کے دو گروہ بن گئے، کچھ کہنے والے یہ کہتے: وہ تباہ و برباد ہو گیا، اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا۔ اور کچھ کہنے والے یہ کہتے: ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں (ہو سکتی) کہ وہ (خود) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، پھر کہا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے۔ کہا: دو یا تین دن وہ (اختلاف کی) اسی کیفیت میں رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، وہ سب بیٹحے ہوئے تھے، آپ نے سلام کہا، پھر بیٹھ گئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے بخشش مانگو۔ کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ ماعز بن مالک کو معاف فرمائے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔کہا: پھر آپ کے پاس ازد قبیلے کی شاخ غامد کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو آپ نے فرمایا: تم پر افسوس! لوٹ جاؤ، اللہ سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ اس نے کہا: میرا خیال ہے آپ مجھے بھی بار بار لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا۔ آپ نے پوچھا: وہ کیا بات ہے (جس میں تم تطہیر چاہتی ہو؟) اس نے کہا: وہ زنا کی وجہ سے حاملہ ہے۔ تو آپ نے (تاکیدا) پوچھا: کیا تم خود؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں، تو آپ نے اسے فرمایا: (جاؤ) یہاں تک کہ جو تمہارے پیٹ میں ہے اسے جنم دے دو۔ کہا: تو انصار کے ایک آدمی نے اس کی کفالت کی حتی کہ اس نے بچے کو جنم دیا۔ کہا: تو وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ور کہنے لگا: غامدی عورت نے بچے کو جنم دے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب ہم (ابھی) اسے رجم نہیں کریں گے اور اس کے بچے کو کم سنی میں (اس طرح) نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اسے دودھ پلانے والا نہ ہو۔ پھر انصار کا ایک آدمی کھڑا ہوا ور کہا: اے اللہ کے نبی! اس کی رضاعت میرے ذمے ہے۔ کہا: تو آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 445 ´جسے شرعی حد لگی ہوا اور وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی` ”سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے غامدیہ کے قصہ میں مروی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارتکاب زنا کی پاداش میں رجم و سنگساری کا حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم دیا پھر خود اس کی جنازہ پڑھی اور اسے دفن کیا گیا۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 445] لغوي تشريح: «فِي قِصَّةِ الْغَامِدِيَّةِ» غامد کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے انہیں غامدیہ کہا جاتا ہے جو کہ قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ تھی۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اعتراف کیا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے، لہٰذا نبی صلى الله عليه وسلم نے بچے کی ولادت اور مدت رضاعت مکمل ہو جانے کے بعد اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ رجم کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کو پتھروں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ «فَصَّلّٰي عَلَيْهَا» اکثر شارحین کے نزدیک یہ معروف کا صیغہ ہے اور بعض کے نزدیک صیغہ مجہول ہے۔ فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ جسے شرعی حد لگی ہوا اور وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ارواء الغليل، حديث: 2323 ونيل الاوطار، باب الصلاة على من قتل فى حد] ➋ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود غامدیہ کی نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ کبیرہ گناہوں کا ارتکا ب کرنے والے، مثلاً خودکشی کرنے اور زنا وغیرہ کرنے والے کے بارے میں قاضی عیاض نے کہا ہے کہ علماء کے نزدیک ان کا جنازہ پڑھا جائے گا، البتہ امام مالک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ امام (کبیر) اور مفتی کو فاسق کا جنازہ پڑھانے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ فساق کو اس سے عبرت حاصل ہو۔ بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 445