You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ جَلَبَةَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَهُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ، فَأَقْضِي لَهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ، فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يَذَرْهَا
Umm Salama, the wife of Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ), reported that Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) heard the clamour of contenders at the door of his apartment. He went to them, and said: I am a human being and the claimants bring to me (the dispute) and perhaps some of them are more eloquent than the others. I judge him to be on the right, and thus decide in his favcur. So he whom I, by my judgment, (give the undue share) out of the right of a Muslim,. I give him a portion of Fire; he may burden himself with it or abandon it.
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے والوں کا شور و غوغا سنا، آپ باہر نکل کر ان کی طرف گئے اور فرمایا: میں ایک انسان ہوں اور میرے پاس جھگڑا کرنے والے آتے ہیں، ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ زبان آور ہو، میں سمجھوں کہ وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ میں جس شخص کے حق میں کسی (دوسرے) مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے اٹھا لے یا چاہے تو چھوڑ دے
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2317 ´حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قاضی کو فریقین کے دلائل گواہوں کی گواہی اور دیگر قرائن کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود اگر اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے گناہ نہیں ہوگا۔ (2) اگر ایک شخص کو معلوم ہے کہ اس معاملے میں میرا موقف درست نہیں لیکن قاضی اس کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے تو اس سے اصل حقیقت میں فرق نہیں پڑتا لہٰذا اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں جسے قاضی اس کی قرار دے چکا ہے۔ (3) اس حدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے یہ اصول بیان فرمایا ہے: قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہوتا ہے باطناً نہیں۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ قاضی کے فیصلے سے کسی دوسرے کی چیز حلال نہیں ہو جاتی مثلاً اگر جھوٹے گواہوں کی مدد سے یہ فیصلہ لے لیا جائے کہ فلاں عورت کا نکاح ہو چکا ہے تو مرد کے لیے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہو گا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا اور قیامت والے دن اسے اس کی سزا ملے گی۔ اس طرح اگر قاضی یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں عورت کو طلاق ہو چکی ہے جبکہ حقیقت میں مرد نے طلاق نہ دی ہو تو مرد اپنی اس بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر اللہ کے ہاں مجرم نہیں ہو گا۔ (4) نبی اکرم ﷺ کو علم غیب حاصل نہیں تھا البتہ بعض معاملات میں وحی کے ذریعے سے آپ کو خبر دے دی جاتی تھی۔ (5) ناجائز طور پر حاصل کیا ہوا مال قیامت کے دن سزا کا باعث بھی ہو گا اور رسوائی کا سبب بھی، جب مجرم سب لوگوں کےسامنے اپنے جرم کے ثبوت سمیت موجود ہو گا اور اسے اس کے مطابق سرعام سزا ملے گی۔ سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2317