You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ»، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ يَهُودَ، أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا»، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ أُرِيدُ، أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا»، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَلِكَ أُرِيدُ»، فَقَالَ لَهُمُ الثَّالِثَةَ: فَقَالَ: «اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ
It has been narrated on the authority of Abu Huraira who said: We were (sitting) in the mosque when the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) came to us and said: (Let us) go to the Jews. We went out with him until we came to them. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) stood up and called out to them (saying): O ye assembly of Jews, accept Islam (and) you will be safe. They said: Abu'l-Qasim, you have communicated (God's Message to us). The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: I want this (i. e. you should admit that God's Message has been communicated to you), accept Islam and you would be safe. They said: Abu'l-Qisim, you have communicated (Allah's Message). The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: I want this... - He said to them (the same words) the third time (and on getting the same reply) he added: You should know that the earth belongs to Allah and His Apostle, and I wish that I should expel you from this land Those of you who have any property with them should sell it, otherwise they should know that the earth belongs to Allah and His Apostle (and they may have to go away leaving everything behind).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک بار ہم مسجد میں تھے کہ (اچانک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یہود کی طرف چلو۔ ہم آپ کے ساتھ نکلے حتی کہ ان کے ہاں پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، بلند آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا: اے یہود کی جماعت! اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔ انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں یہی (پیغام پہنچانا) چاہتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی پاؤ گے۔ انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں یہی چاہتا ہوں۔ آپ نے ان سے تیسری مرتبہ کہا اور فرمایا: جان لو! یہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس زمین سے جلا وطن کر دوں، تم میں سے جسے اپنے مال کے عوض کچھ ملے تو وہ اسے فروخت کر دے، ورنہ جان لو کہ یہ زمین اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6944 ´جس کے ساتھ زبردستی کی جائے` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ: ذَلِكَ أُرِيدُ، ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ثُمَّ قَالَ: الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب ہم بیت المدراس کے پاس پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اے قوم یہود! اسلام لاؤ تم محفوظ ہو جاؤ گے۔ یہودیوں نے کہا: ابوالقاسم! آپ نے پہنچا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا بھی یہی مقصد ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اور یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم آپ نے پہنچا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی فرمایا۔ اور پھر فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ پس تم میں سے جس کے پاس مال ہو اسے چاہئے کہ جلا وطن ہونے سے پہلے اسے بیچ دے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِكْرَاهِ: 6944] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6944 کا باب: «بَابٌ في بَيْعِ الْمُكْرَهِ وَنَحْوِهِ فِي الْحَقِّ وَغَيْرِهِ:» باب اورحدیث میں مناسبت: علامہ خطابی رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض وارد کیا ہے کہ ان دونوں میں مناسبت موجود نہیں ہے۔ چنانچہ آپ راقم ہیں: «استدل أبوعبدالله يعني البخاري بحديث أبى هريرة يعني المذكور فى الباب على جواز بيع المكره والحديث ببيع المضطر أشبه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13] ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیع المکرہ کے جواز پر استدلال فرمایا ہے جب کہ یہ حدیث بیع مضطر کے ساتھ اشبہ ہے، کیوں کہ بیع پر مکرو ہی کسی شئی کا بیع کا حامل ہے اس کی رضا ہو یا نہ ہو۔“ یہی اعتراض علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری میں نقل فرمایا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان اعتراضات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے جوابات بھی مہیا کیے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے مضطر کی بیع جائز رکھی ہے، اسی لیے آپ نے باب سے اس کا جواز نکالا ہے، مضطر سے مراد وہ شخص ہے جو مفلس ہو کر اپنا مال بیچے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہیں: «قلت لم يقتصر البخاري فى الترجمة على المكره و إنما قال: ”بيع المكره و نحوه فى الحق“ فدخل فى ترجمته المضطر، وكأنه أشار إلى الرد على من لا يصح بيع المضطر، و قوله فى آخر كلامه.» [فتح الباري لابن حجر: 272/13] ”امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مکرہ پر اقتصار نہیں کیا، صرف یہ کہا: «بيع المكره ونحوه فى الحق» تو اس میں مضطر بھی داخل ہے، گویا ان حضرات کے رد کا اشارہ دیا ہے جو مضطر کی بیع کی صحت کے قائل نہیں ہیں، خطابی رحمہ اللہ کا آخر میں کہنا ہے کہ اگر اس پر مجبور کیا گیا تو یہ جائز نہیں مردود ہے، کیوں کہ یہ حق کے ساتھ اکراہ ہے، علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے بھی ان کا تعاقب کیا ہے۔“ ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، بیع مکرہ اور بیع مضطر، ترجمۃ الباب کا تعلق دوسرے جزء یعنی بیع مضطر سے ہے لہٰذا مضطر سے مراد یہاں یہ ہے کہ مجبور ہو کر اپنا مال بیچے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو ان کا مال بیچنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے بیان سے واضح ہے، اور جہاں تک پہلے جزء کا تعلق ہے تو اس کے لیے متن حدیث سے استدلال کو اخذ فرمایا ہے، کیوں کہ بیع المکرہ میں مضطر بالاولی داخل ہو گا، یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔ «والله اعلم» عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 261