You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ: «رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ»،
It has been narrated on the authority of 'Abdullah who said: It appeared to me as if I saw the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) (and heard him) relate the story of a Prophet who had been beaten by his people, was wiping the blood from his face and was saying. My Lord, forgive my people, for they do not know.
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جیسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں، آپ انبیاء میں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے جنہیں ان کی قوم نے مارا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور (یہ) فرما رہے تھے: اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے، وہ نہیں جانتے (کہ وہ کیا کر رہے ہیں
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6929 ´نوح علیہ السلام کی حقانیت` «. . . حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، فَأَدْمَوْهُ، فَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ . . .» ”. . . مجھ سے شقیق ابن سلمہ نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا جیسے میں (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں آپ ایک پیغمبر (نوح علیہ السلام) کی حقانیت بیان کر رہے تھے ان کی قوم والوں نے ان کو اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے تھے اور یوں دعا کرتے جاتے «رب اغفر لقومي، فإنهم لا يعلمون.» ”پروردگار میری قوم والوں کو بخش دے وہ نادان ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6929] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6929 کا باب: «بَابٌ:» باب اور حدیث میں مناسبت: تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے تین احادیث کا ذکر فرمایا، سیدنا انس بن مالک، امی عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے، ان تینوں احادیث سے باب کی مناسبت ظاہر ہے، مگر ان تینوں احادیث کے ذکر کے بعد صرف ”باب“ کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث درج فرمائی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا کوئی نام نہیں رکھا، بلکہ اسے خالی چھوڑ دیا، کیونکہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ بسا اوقات باب کسی مسئلے پر قائم فرما کر اس باب کے تحت صرف ”باب“ ہی قائم کرتے ہیں اور اسے کوئی نام نہیں دیتے، دراصل ان مقامات پر یہ بات واضح کرنا مقصود ہوتی ہے کہ یہ خالی باب ما قبل باب کا حصہ یا تتمہ ہے، لہٰذا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق باب سے کچھ اس طرح سے ہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «وجه ذكر هذا الحديث هنا من حيث إنه ملحق بالباب المترجم الذى فيه ترك النبى صلى الله عليه وسلم قتل ذاك القائل بقوله: السام عليك، وكان هذا من رفقه وصبره على اذي الكفار، والأنبياء عليهم السلام كانوا مأمورين بالصبر، قال الله تعالي: ﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ﴾ [الأحقاف: 35] وفى هذا الحديث بيان صبر نبي من الأنبياء الذين أنفع غير منهمز.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 123/23] ”ترجمۃ الباب سے اس حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ یہ باب اس باب سے ملحق ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو «السام عليك» کہنے والے نے کہا تھا، پس یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رفق اور صبر تھا کافروں کے اذیت پہنچانے کے باوجود اور انبیاء علیہم السلام صبر کرنے پر مامور ہوتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ”صبر کیجئے، جس طرح سے اول العزم رسولوں نے صبر کیا“، یہ حدیث نبیوں میں کسی نبی کے صبر کا بیان ہے۔“ علامہ عینی رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ماقبل باب سے ہے، اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نبی نے تکالیفوں پر صبر کیا۔ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ صاحب کا کہنا ہے کہ باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں کہ حدیث میں سب (برا کہنا) اور طعن موجود نہیں ہے، بلکہ وہ دعا تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کی دی جا رہی تھی۔ «انه لم يوجد ههنا معنى السب والطعن، بل هو دعاء عليه الموت، ولكن على هذا يشكل مطابقة الحديث بترجمة الباب كما لا يخفى.» [الابواب والتراجم 601/6] محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ صاحب کی بات محل نظر ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی منشاء ترجمۃ الباب میں صریح الفاظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے پر نہیں ہے، بلکہ خفی انداز سے اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے، یا پھر سب کے الفاظ ادا کرے، لہٰذا اس باب کے اعتبار سے تحت الباب حدیث مکمل طور پر مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ مشغلہ تھا کہ زبان مروڑ کر غلط الفاظ کی ادائیگی کرتے تھے، دراصل یہود و نصاریٰ اپنے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موت کے الفاظ استعمال کر رہے تھے، نیت کی خرابی کی وجہ سے وہ موت کے الفاظ حقیقتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سب اور طعن کے مانند تھے، لہٰذا یہی مقصود ہے ترجمۃ الباب اور حدیث کا۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 258