You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبِ بْنِ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا أَصْلَحَكَ اللهُ، بِحَدِيثٍ يَنْفَعُ اللهُ بِهِ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دَعَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْنَاهُ، فَكَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا: «أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ»، قَالَ: «إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللهِ فِيهِ بُرْهَانٌ
It has been narrated on the authority of Junida b. Abu Umayya who said: We called upon 'Ubada b. Samit who was ill and said to him: May God give you health I Narrate to us a tradition which God may prove beneficial (to us) and which you have heard from the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ). He said: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) called us and we took the oath of allegiance to him. Among the injunctions he made binding upon us was: Listening and obedience (to the Amir) in our pleasure and displeasure, in our adversity and prosperity, even when somebody is given preference over us, and without disputing the delegation of powers to a man duly invested with them (Obedience shall be accorded to him in all circumstances) except when you have clear signs of his disbelief in (or disobedience to) God-signs that could be used as a conscientious justification (for non-compliance with his orders).
جنادہ بن ابی امیہ سے روایت ہے، کہا: ہم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے، وہ (اس وقت) بیمار تھے، ہم نے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے، ہم کو ایسی حدیث سنائیے جس سے ہمیں فائدہ ہوا اور جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، (حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلایا، ہم نے آپ کےساتھ بیعت کی، آپ نے ہم سے جن چیزوں پر بیعت لی وہ یہ تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خوشی اور ناخوشی میں اور مشکل اور آسانی میں اور ہم پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں، سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی اور اس پر کہ ہم اقتدار کے معاملے میں اس کی اہلیت رکھنے والوں سے تنازع نہیں کریں گے۔ کہا: ہاں، اگر تم اس میں کھلم کھلا کفر دیکھو جس کے (کفر ہونے پر) تمہارے پاس (قرآن اور سنت سے) واضح آثار موجود ہوں
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866 ´بیعت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ (2) زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً: (ا) مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ (ب) راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔ (ج) بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔ (د) بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔ حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔ (3) حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ (4) اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔ اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔ (5) جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔ سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2866