You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ»، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ»، قَالَ ابْنُ مِقْسَمٍ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِيكَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ قَالَ: «وَالْغَرِيقُ شَهِيدٌ»،
It has been narrated on the authority of Abu Huraira (through another chain of transmitters) that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Whom do you consider to be a martyr among you? They (the Companions) said: Messenger, of Allah, one who is slain in the way of Allah is a martyr. He said: Then (if this is the definition of a martyr) the martyrs of my Umma will be small in number. They asked: Messenger of Allah, who are they? He said: One who is slain in the way of Allah is a martyr; one who dies in the way of Allah, is a martyr; one who dies of plague is a martyr; one who dies of cholera is a martyr. Ibn Miqsam said: I testify the truth of your father's statement (with regard to this tradition) that the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: One who is drowned is a martyr.
جریر نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد (ابوصالح) سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم آپس میں (بات کرتے ہوئے) شہید کس کو شمار کرتے ہو؟ صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! جو شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔آپ نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء بہت کم ہوئے۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! پھر وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اللہ کی راہ میں (طلبِ علم، سفرِ حج، جہاد کے دوران میں اپنی موت) مر جائے وہ شہید ہے، جو شخص طاعون میں مرے وہ شہید ہے، جو شخص پیٹ کی بیماری میں (مبتلا ہو کر) مر جائے وہ شہید ہے۔(ابوصالح سے بیان کرنے والے ایک اور راوی عبیداللہ) بن مقسم نے (سہیل بن ابی صالح سے) کہا: میں تمہارے والد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے (حدیث بیان کرتے ہوئے یہ بھی) کہا تھا: اور غرق ہونے والا شہید ہے۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2829 ´اللہ کی راہ میں مارے جانے کے سوا شہادت کی اور بھی سات قسمیں ہیں` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘ پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘ ڈوب کر مرنے والا ‘ دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2829] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2829 کا باب: «بَابُ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں سات شہادت کی اقسام کا ذکر فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پانچ اقسام والی حدیث پیش فرمائی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جن سات شہادتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ بھی حدیث میں مروی ہے مگر وہ حدیث ان کی شرط پر نہ تھی۔ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويحتمل عندي أن يكون البخاري أراد التنبيه على أن الشهادة لا تنحصر فى القتل، بل لها أسباب آخر وتلك الأسباب أيضا اختلفت الأحاديث فى عددها ففي بعضها خمسة، وهو الذى صح عند البخاري و وافق شرطه وفي بعضها سبعة، ولم يوافق شرط البخاري.» [المتواري، ص: 159] ”میرے نزدیک یہ احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ صرف قتال میں شہادت کا انحصار نہیں ہے بلکہ اس کے اور بھی اسباب ہیں جو مختلف احادیث میں مختلف شمار کے ساتھ ہیں۔ بعض احادیث میں پانی کا ذکر ہے جو کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر ہے (جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں فرمایا ہے) اور بعض احادیث میں سات کا ذکر ہے (جیسا کہ باب قائم فرمایا ہے) مگر وہ احادیث (جس میں سات کا ذکر ہے) امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے۔“ لہذا باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں شہادت کی سات اقسام کا ذکر ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے «المؤطا» میں ذکر فرمایا ہے جس کی روایت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: «الشهداء سبعة سوى القتل» [مؤطا، كتاب الجنائز، رقم الحديث: 26] ”شہداء سات قسموں پر ہیں قتل کے علاوہ۔“ یہ حدیث چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہ تھی اسی لیے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا باب قائم فرما کر، اور جو پانچ قسموں پر حدیث ہے اسے نقل کر دیا چونکہ وہ آپ رحمہ اللہ کی شرط پر تھی۔ ابن بطال رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث باب سے یہ ترجمہ سرے سے ہی مستنبط نہیں ہوتا کیونکہ ترجمہ سات کا ہے اور حدیث میں سوی القتل شہداء چار ہیں۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص 42] مذکورہ اعتراض کا جواب ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن بطال رحمہ اللہ کا قول ظاہر اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس ترجمۃ الباب کے تحت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کی حدیث کو داخل کرنا چاہتے ہیں، لیکن قضا نے ان کو مہلت نہ دی، لیکن ابن بطال کا قول محل نظر ہے۔ [المتواري على أبواب البخاري، ص: 158] یہ ترجمہ مؤطا کی ایک روایت سے ماخوذ ہے جو سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس میں شہداء کی سوی القتل فی سبیل اللہ کی سات ہی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 43] محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي يمكن أن يقال إن لفظ ”سبع“ يطلق ويراد به الكثرة و معنى الترجمة أن أسباب الشهادة سوا القتل كثيرة.» [الأبواب والتراجم لصحيح البخاري، ج 4، ص: 223] میرے نزدیک بات یہ ہے کہ لفظ ”سبع“ کو جب مطلقا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد کثرت ہوتی ہے۔ لہذا ترجمۃ الباب کا معنی یہ ہو گا کہ «قتل فى سبيل الله» کے علاوہ بھی شہادت کے کئی اسباب ہیں (جن کا ذکر کتب احادیث میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے) اور ”سبع“ کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر نہیں رہے گا بلکہ معنی مجازی (کثرت) پر محمول ہو گا۔ فائدہ: سب سے بڑا شہادت کا رتبہ وہ ہے جو اللہ کے رستے میں مارا جائے، ان کے علاوہ بھی احادیث میں کئی شہداء کے مراتب کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان شہداء کی تعداد بیس ذکر فرمائی ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 54] امام زرقانی رحمہ اللہ شارح مؤطا امام مالک نے ان کی تعداد ستائیس ذکر فرمائی ہے۔ [شرح الزرقاني، ج 2، ص: 600] علامہ عینی رحمہ اللہ نے چالیس کا ذکر فرمایا ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 124] علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے اور ان کی تعداد تیس بیان فرمائی ہے۔ [أوجز المسالك، ج 4، ص: 392 - أبواب السعادة فى أسباب الشهادة للسيوطى] محمد ذکریا کاندھلوی نے ان کی تعداد ساٹھ ذکر فرمائی ہے۔ [أوجز المسالك، ج 4، ص: 294] ہم ان شہداء کا مختصر ذکر کیئے دیتے ہیں۔ ① اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ ② ذات الجنب کے درد سے مر جائے۔ ③ عورت اپنے نفاس کی حالت میں مر جائے۔ ④ اپنے مال بچانے کے لیے۔ ⑤ اپنے دین، خون اور اہل کے بچانے کے لیے۔ ⑥ گھوڑے یا اونٹ سے کچلا گیا۔ ⑦ زہریلے جانور سانپ یا بچھو کے ڈسنے سے۔ ⑧ مسافر کی موت۔ ⑨ اللہ کی راہ میں پہرہ دینے والا۔ ⑩ جس کو درندہ کھا لے۔ ⑪ جو خالص دل سے شہادت طلب کرے اور اپنے بچھونے پر مر جائے۔ ⑫ مبطون - پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا۔ ⑬ لدیغ - ڈسا ہوا۔ ⑭ غریق۔ ⑮ اپنی سواری سے گر کر مر جائے۔ ⑯ جو پہاڑ کے سر سے گرا دیا جائے۔ ⑰ دریا میں ڈوب جائے۔ ⑱ جل کر مر جائے آگ میں، وغیرہ وغیرہ۔ مزید تفصیل اور تحقیق کے لیے دیکھئے: [فتح الباري لابن حجر رحمه الله، ج 6، ص: 54 - شرح الزرقاني على مؤطا امام مالك ج 2، ص: 99-100 - عمدة القاري للعيني رحمه الله، ج 14، ص: 124 - اوجز المسالك، ج 4، ص 292] امام نووی رحمہ اللہ ان مراتب پر گفتگو کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ: «المراد بشهادة هؤلاء كلهم غير المقتول فى سبيل الله إنهم يكون لهم ثواب الشهداء و أماني الدنيا فيغسلون و يصلى عليهم و قد سبق فى كتب الإيمان بيان هذا و أن الشهداء ثلاثة أقسام شهيد فى الدنيا و الآخرة و هو المقتول فى الحرب الكفار و شهيد فى الآخرة دون أحكام الدنيا و هم هؤلاء المذكورون هنا و شهيد فى الدنيا دون الآخرة و هو من غل فى الغنيمة أو قتل مدبرا.» [شرح نووي، ج 2، ص: 142] ”یعنی مقتول کے علاوہ ان جملہ شہادتوں سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں ان کو شہداء کا ثواب ملے گا مگر دنیا میں وہ شہداء کی طرح نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی طرح غسل دیئے جائیں گے اور ان پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی، شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ ہیں جو دنیا اور آخرت میں شہید ہی ہیں جو جہاد میں کافروں کے ہاتھوں مارے گئے، دوسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہوئے مگر آخرت میں شہید نہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کی، تیسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہیں مگر دنیا میں ان پر احکام شہداء جاری نہ ہوں گے، ایسے ہی شہداء یہاں مزکور ہیں۔“ ➊ شہید فی الدنیا و الآخرۃ سے مراد کون ہیں؟ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کریں اور وہ شہید ہو جائیں۔ ➋ شہید فی الدنیا سے مراد کون ہیں؟ اس سے مراد وہ شخص ہے جو میدان جہاد میں مارا جائے لیکن اس کی نیت ریاکاری، شہرت اور نام و نمود ہو، یا پھر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہا ہو، یا پھر مال غنیمت میں خیانت کی ہو۔ ➌ شہید فی الآخرۃ سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیوار گرنے سے دب کر مر جائیں، یا جل کر مر جائیں، یا پیٹ کی بیماری کا شکار ہو کر مر جائیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ تیسری قسم ہے کہ ان پر دنیا میں شہید کے احکامات لاگو نہیں ہوں گے، یعنی انہیں غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 53-55 - شرح الكرماني، ج 5، ص: 43 - عمدة القاري، ج 14، ص: 127] عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 400