You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْقِي بِهَذِهِ الرُّقْيَةِ أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِكَ الشِّفَاءُ لَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا أَنْتَ
A'isha reported: Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) used to recite (this supplication) as the words of incantation: Lord of the people, remove the trouble for in Thine Hand is the cure; none is there to relieve him (the burden of disease) but only Thou.
ابن نمیر نے کہا:ہمیں ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیان کی،انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ساتھ دم کرتے تھے:تکلیف دور فرمادے،اے سب انسانوں کے پالنے والے!شفا تیرے ہی ہاتھ میں ہے،تیرے سوا اس تکلیف کو دور کرنے والا اور کوئی نہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1619 ´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس. واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» ”اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بیماری سخت ہو گئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1619] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دعا کے ساتھ اللہ کی پناہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے حفاظت یا نجات کے لئے ان الفاظ کے ساتھ اللہ سے دعا فرمایا کرتے تھے۔ (2) بیماری کے موقع پر مسنون الفاظ کے ساتھ دعا اور دم کرنا چاہیے تاکہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے۔ (3) مشکلات کو حل کرنے اور بیماری سے شفا دینے کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خود نبی کریمﷺ نے بھی اللہ ہی سے شفا مانگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا۔ ﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾ (الشعراء۔ 80، 26) ”اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو وہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔“ اس لئے صحت وعافیت کا سوال صرف اللہ ہی سے کرنا چاہیے۔ (4) (الرفیق الاعلیٰ) سے مراد انبیاء واولیاء ہیں جو نبی کریمﷺ سے پہلے ر حلت فرما کر جنت میں پہنچ گئے جیسے کہ اگلی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ (5) رسول اللہ ﷺ کے ان الفاظ کو موت کی تمنا قرار نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ یہ اللہ کے فیصلے پر رضامندی (رضا بالقضا) کا اظہار ہے موت کی تمنا اس وقت منع ہے۔ جب اس کا سبب دنیا کی مشکلات سے پریشانی ہو۔ شہادت کی تمنا بھی ممنوع نہیں۔ سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1619