You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ وَاسْتَعَطَ
Ibn 'Abbas reported that Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) got himself cupped and gave to the cupper his wages and he put the medicine in the nostril.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوانے اور لگانے والے کو اس کی اجرت دی اور آپ نے ناک کے ذریعے دوائی لی۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5694 ´ کس وقت پچھنا لگوایا جائے` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ . . .» ”. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ: 5694] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5694کا باب: «بَابُ أَيَّ سَاعَةٍ يَحْتَجِمُ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب قائم فرمایا کہ کون سے وقت پچھنا لگوانا چاہے؟ اس مسئلے کو سوالیہ رکھا اور تحت الباب ایک اثر اور ایک مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اثر میں رات کے وقت پچھنے لگانے کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں دن کا ذکر ہے اب یہاں پر وقت کا تعین کس طرح ہو گا؟ اور ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت کیسے ہو گی؟ علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «ظاهر صنع الامام البخاري رحمه الله: أن الحجامة تصنع عند الاحتياج ولا تقييد بوقت دون وقت، لأنه ذكر الاحتجام ليلاً، وذكر حديث ابن عباس، وهو يقتضي كون ذالك وقع منه نهارا .» ”یعنی حجامہ ضرورت کے وقت کبھی بھی لگائے جا سکتے ہیں اس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں کیوں کہ اثر میں ہے کہ رات کے وقت پچھنے لگائے اور حدیث جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس میں دن کا ذکر ہے۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ احتجام پچھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بعد سیدنا ابوموسٰی رضی اللہ عنہ کا تعلیق ذکر فرمائی کہ انہوں نے رات کے وقت پچھنے لگائے اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔“ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب کے ذریعے مطلق زمانے کا ذکر ہے، کسی مخصوص وقت کو متعارف کروانا نہیں ہے، جو احادیث اوقات لائقہ میں حجامہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہیں، گویا کہ آپ رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت پچھنے لگوا لیے جائیں (یعنی وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔)“ بعض حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوداؤد وغیرہ کی احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس میں پچھنے لگانے کے دنوں کی تفصیل ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «لعل البخاري يشير إلى حديث عند ابي داؤد، فيه تفصيل الأيام للاحتجام .» ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لم يصح فيه شيئي عند البخاري فذالك لم يتعرض لها وقد وردت فيها احاديث .» یعنی دنوں اور وقتوں کے تعین کے بارے میں بھی روایات ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں جس کی وجہ سے آپ نے ان روایات کو پیش نہیں کیا۔ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلا رجحان تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ مطلق حجامہ لگانے کو جائز قرار دیتے ہیں بغیر کسی وقت و دن کے قید کے لہٰذا ایک حدیث اور ایک اثر کو پیش کرنے کی غرض ہی یہی ہے کہ دن و رات پچھنے لگانے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ اور جہاں تک پچھنے لگانے والی دوسری روایات کا تعلق ہے جن میں دنوں کا تعین ہے تو اس کا ذکر ہم کر دیتے ہیں تاکہ مزید مسئلے کی وضاحت ہو جائے مثلاً: «عن انس رضى الله عنه أنه عليه السلام كان يحتجم فى الأخدعين والكاهل، وكان يحتجم لسبع عشرة وتسع عشرة واحدىٰ وعشرين .» اس حدیث سے سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو جامہ لگانا ثابت ہوتا ہے۔ «عن ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً من احتج لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين كان شفاء من كل داء .» [ابوداؤد رقم: 3861۔ وقال النووي في ”المجموع“ اسناده حسن على شرط مسلم] ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: «من احتجم يوم الأربعاء ويوم السبت فأصابه وضح فلا يلومن الا نفسه .» [رواه الحاكم: 409/4، البيهقي: 340/9 - وقال البيهقي: سليمان بن ارقم ضعيف۔ قال الذهبي رحمه الله فى التلخيص سليمان ضعيف: 409/4] اس روایت میں بدھ اور ہفتہ کے روز حجامت کرنے کی ممانعت ہے مگر یہ سنداً ضعیف ہے۔ ایک اور روایت جسے امام عقیلی رحمہ اللہ نے ”الضعفاء“ میں ذکر فرمایا کہ: «عن كبشة بنت ابي بكرة عن أبيها انه كان ينهٰى أهله عن الحجابة يوم الثلاثة، ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بأن يوم الثلاثاء يوم الدم وفيه ساعة لا يرقا .» [الضعفاء للعقيلي: 150/1، والألباني فى الضعيفة: 2251] اس روایت سے منگل کے روز حجامہ لگانے کی ممانعت ہے لیکن یہ بھی ضعیف سند کے ساتھ ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی ”العلل المتناہیۃ“ میں ہے کہ: «عليكم بالحجامة يوم الخميس فإنها تذير فى العقل .» [العلل المتناهية: 394/2] اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعرات کے روز حجامہ لگانا چاہیے مگر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔ «وقال لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم» حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس روایت کے بارے میں جسے ابن ماجہ اور طبرانی نے نقل فرمایا کہ: «نعم العبد الحجام يذهب الدم ويخفف الصلب ويجلو عن البصر وان خير ما تحتجمون فيه يوم سبع عشرة ويوم تسع عشرة وأحد وعشرين . ”قال الحافظ في“”إتحاف المهرة 619/7“ ”قال على بن مديني: سمعت يحيىٰ بن سعيد القطان يقول: قلت لعباد بن منصور، سمعت هذا الحديث ممن؟ قال حدثني ابن ابي يحيىٰ عن داؤد بن الحصين عن عكرمة، فعلٰى هذا فالحديث معلول“» [وضعفه الألباني فى الضعيفة: 2036] جامع الاصول میں سیدنا عمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحتجم يوم سبعة عشرة وتسعة عشرة وأحد وعشرين .» [جامع الأصول: 7/ 544] یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ لگایا سترہ تاریخ کو، انیس کو اور اکیس تاریخ کو۔ ایک اور روایت ابوداؤد کی ہے کہ: «عن سلمٰى خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: ما كان أحد يشتكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجعاً فى رأسه الا قال: ”احتجم“ ولا وجعاً فى رجليه الا قال”اخضبهما“ .» [ابوداؤد، رقم: 3858 - الصحيحة للالباني: 2059] یعنی جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سر درد کی شکایت لے کر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: ”حجامہ لگواؤ؟ اور جو کوئی پاؤں کے درد کی شکایت بتاتا تو آپ فرماتے: ”مہندی لگاؤ“ سند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے۔ ابونعیم رحمہ اللہ کی ”الطب“ میں ہے کہ: «عن ابن عباس مرفوعاً: الحجامة فى الرأس شفاء من سبع الجنون والجذام والبرص والنعاس ووجع الاضراس والظلمة يجدها فى عينيه .» [الطب النبوي: 359/1- الطبراني فى الكبير: 21/29 - المجروحين لابن حبان: 86/2] ان احادیث میں دن، تاریخ، دونوں بتائے گئے ہیں کہ سترہ، انیس، اکیس، تاریخ کو پچھنے لگانا چاہے، اسی طرح جمعرات، جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر کے دن لگانا چاہیے، بدھ اور ایک روایت میں منگل کے دن کی ممانعت آئی ہے، یہ تمام روایات امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہیں تھیں، اسی لیے ذکر نہیں فرمایا، صرف خفیف سا اشارہ فرما دیا ہے، چنانچہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «وعند الأطباء أن أنفع الحجامة ما يقع فى الساعة الثانية أو الثالثة، وأن لا يقع عقب استفراع من حمام أو جماع ولا عقب بشبع ولا جوع وإنها تعجل فى النصف الثاني من الشهر، ثم فى الربع الثالث من أرباعه أنفع من أوله واٰخره، لأن الأخلاط فى اول الشهر تهيج وفي اٰخره تسكن فأولي ما يكون الاستفراغ فى اثنانه .» [ارشاد الساري: 15/10] ”یعنی دن کے دوسرے تیسرے حصے میں پچھنے لگانا اطباء کے نزدیک اچھا ہے، غسل، جماع کے بعد صحیح نہیں، اسی طرح سے زیادہ بھوک یا زیادہ شکم سیری کی حالت میں بھی ٹھیک نہیں، مہینہ کے آخری پندرہ دنوں میں لگائے جائیں، چودہ تاریخ سے لے کر تئیس (۲۳) تاریخ تک کے دن سب سے زیادہ مناسبت ہیں، کیوں کے جسم کے اخلاط میں مہینے کی ابتداء میں ہیجان ہوتا ہے، جب کہ مہینے کے آخر میں یہ ساکن ہوتے ہیں، اس لیے درمیان کا عرصہ بہتر ہے، کیوں کہ وہ اخلاط کے اعتزال کا زمانہ ہوتا ہے۔“ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 155